کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 52
اللہ نے ان کی نسل میں بڑی برکت دی۔ ان کی نسل ڈیانواں ، نگرنہسہ، محی الدین پور، نیمی اور موجی پور وغیرہا قصبات میں آباد ہوئی اور بڑے بڑے مشاہیر ان کی نسل سے پیدا ہوئے۔ ڈیانواں میں شیخ محمد چاند کے اولاد و احفاد میں مولانا گوہر علی پیدا ہوئے جن کی ذات فضل و کمال کا مخزن تھی۔ مولانا گوہرعلی صدیقی ڈیانوی: محدث عظیم آبادی کے نانا بزرگوار مولانا گوہر علی سخاوت و فیاضی میں مشہورِ انام تھے۔ لوگوں نے انھیں ’’تاج الاسخیاء‘‘ کا لقب دیا تھا، حتی کہ شیخ الکل سید نذیر حسین ممدوح ان کے خانوادہ مرجع افادہ کو ’’مجمع افتادگان‘‘ کہا کرتے تھے۔[1] مولانا گوہر علی ۱۲۱۳ھ میں ڈیانواں میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلۂ نسب حسبِ ذیل ہے: ’’مولانا گوہر علی بن شیخ مہر علی بن شیخ کرم علی بن شیخ برہان الدین بن شیخ ہدایت علی بن شیخ عبد الغفور بن شیخ غلام مظفر بن شیخ ملا عبدالصمد بن ملا شیخ محمد چاند ۔تا۔ حضرت ابی بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ‘‘[2] تحصیلِ علم کے لیے بیتھو (ضلع گیا) اور بعض دیگر مقامات کا سفر کیا۔ فارسی میں مکمل دستگاہ حاصل کرنے کے بعد عظیم آباد پٹنہ میں مولانا مظہر علی عظیم آبادی، مولانا ابو الحسن منطقی سندھی ثم عظیم آبادی، مولانا جان علی عظیم آبادی اور مولانا ابراہیم حسین عظیم آبادی سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کی۔ مولانا گوہر علی نے غربت سے امارت کا سفر کیا تھا، فارغ البال ہونے کے بعد بھی ان کی طبیعت میں غرور اور کسی قسم کی نخوت پیدا نہیں ہوئی، یہی وجہ تھی کہ وہ غریبوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے تھے۔ ان کا درِ دولت سخاوت و فیاضی کے لیے پورے بہار میں مشہور تھا۔ نہایت عالی کردار اور حلم وکرم میں اپنی مثال آپ تھے۔ علم اور علماکے از حد قدر داں تھے، یہی وجہ تھی کہ علما کی ایک بڑی تعداد نے ان کے پاس مستقل بود و باش اختیار کر لی تھی، ان علما کے پاس طلابِ علم کی ایک مخصوص تعداد ہمیشہ کسبِ علم کرتی رہی، عام طور پر باہر سے آئے طلبا کی تعداد سو تک جا پہنچتی تھی۔ یہ طلبا نہ صرف ان علما سے اخذِ علم کرتے بلکہ مولانا گوہر علی کے فیضِ علم سے بھی
[1] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۱۷۲)، مکاتیبِ نذیریہ (ص: ۲۵ ) [2] یادگار گوہری (ص: ۶۰)