کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 518
حصولِ ثواب کی نیت سے سفر کر کے جانا درست ہے، ایک حرمِ مکہ، دوسرے مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تیسرے بیت المقدس۔ اسی طرح زیارتِ قبر نبوی کے بھی آداب ہیں جن پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے تفصیل سے لکھا ہے۔ اس لیے یہ باور کرنا کہ اہلِ حدیث زیارتِ قبر نبوی کے منکر یا مسجدِ نبوی کی جانب شدِّ رحال کے قائل نہیں ، واقعات کے صریح خلاف ہے۔ ہاشمی صاحب نے اپنی کتاب میں ایک مقام پر لکھا ہے: ’’ان کے والد نے میاں نذیر حسین دہلوی سے ان کے کسبِ علم کو بھی پسند نہیں کیا اور جب وہ بدوسر میں مسلکِ اہلِ حدیث کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سرگرم ہوئے تو اس کی بھی مخالفت کی۔‘‘ لیکن یہ تمام بیانات کس طرح درست ہو سکتے ہیں ، جب کہ مولانا کے والد محترم سید نوازش حسین، ان کی پیدایش کے صرف ایک ماہ بعد ہی وفات پا چکے ہوں ؟! اولاد: مولانا کی شادی سید علیم الدین منصف کی صاحبزادی سے ہوئی جن سے صرف ایک بیٹی بی بی جاذرہ پیدا ہوئیں ۔ بی بی جاذرہ کی شادی سیّد محمد اسماعیل ساکن سرتھوا سے ہوئی۔ سید محمد اسماعیل مشہور ادیب و مصنف پروفیسر معین الدین دردائی کے سگے چچا تھے۔ بی بی جاذرہ لاولد رہیں ۔ وفات: جیسا کہ گذشتہ سطور میں تحریر کیا گیا تھا کہ مولانا حجِ بیت اللہ ادا کرنے کے بعد مدینہ طیبہ جا رہے تھے کہ مکہ مکرمہ سے قریب پہلی ہی منزل پر طبیعت ناساز ہو گئی تو واپس مکہ آئے اور یہیں ۱۳۱۱ھ میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اسی مقدس زمین میں آسودۂ لحد ہوئے۔ اللھم اغفرلہ و ارحمہ[1] 
[1] مولانا سید محمد اسحاق بڈوسری گیاوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ مئی ۱۹۲۰ء (مضمون نگار: مولانا عبد الحفیظ گیاوی)، سلسلہ اشرف الانساب (ص: ۱۸۹۔۱۹۰، ۱۹۷، ۲۰۷۔۲۰۸)