کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 517
ارکانِ حج مکہ ہی میں مکمل ہوجاتے ہیں ۔‘‘ شاہ نوازش حسین جو خود بھی صاحبِ علم تھے، مرنجانِ مرنج بزرگ صاحبِ طریقت تھے۔ شیخ تھے اور مریدوں و معتقدین ہر آن جلو میں موجود ہوتے تھے۔ فرمایا کہ ’’جانِ پدر! میں تم جیسا محدث تو نہیں ہوں مگر اتنا تو مجھے بھی علم ہے کہ ارکانِ حج مکہ میں تکمیل پا جاتے ہیں ، لیکن دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری ضروری سمجھتا ہوں ۔ یہ کیا بد بختی ہے کہ مسجد نبوی میں نماز نہ ادا کی جائے۔ دربارِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری سے محروم رہا جائے۔ ویسے تمھاری مرضی ہے، میں اس کے علاوہ کیا کہہ سکتا ہوں کہ اگر تم نے مصمم ارادہ دربارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری نہ دینے کا کر لیا ہے تو اگر کبھی حاضری کے لیے جانا بھی چاہو گے تو حاضری نصیب نہ ہو گی۔ ’’عجیب اتفاق حج کی تکمیل کے فوری بعد مولانا اسحاق نے قصدِ مدینہ منورہ کیا۔ والدِ محترم کو بذریعہ ڈاک مطلع کیا کہ ’’آپ کی دل شکنی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں مدینہ منورہ کے لیے رختِ سفر باندھ رہا ہوں ۔ آپ سے استدعا ہے کہ مجھے معاف کر دیں اور دعا کریں کہ مجھے دربارِ نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری نصیب ہو اور مسجدِ نبوی میں کچھ نمازیں ادا کر لوں ۔‘‘ لیکن وقت نکل چکا تھا۔ آج سے سو سال پہلے کا واقعہ ہے، ڈاک کا نظام ایسا تھا کہ مہینوں بعد خط ملا۔ نہ والد دعائے خیر کر سکے نہ مولانا اسحاق محدث کو حاضری دربارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہوئی۔ ابھی مدینہ ایک منزل دور تھا کہ مولانا بخار میں مبتلا ہوئے اور آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کا مزار ۱۹۱۴ء تک مدینہ منورہ سے ایک منزل دور موجود تھا، اب نشان مفقود ہے۔‘‘[1] ہاشمی صاحب کا یہ پورا بیان محض افسانہ اور طبع زاد ہے۔ مولانا کے والد تو مولانا کے بچپن ہی میں وفات پا چکے تھے، جیسا کہ مولانا عبد الحفیظ ہی نے اپنے مضمون میں اس امر کی تصریح کی ہے۔ مولانا عبد الحفیظ، مولانا اسحاق کے حقیقی ماموں زاد بھائی اور تلمیذِ رشیدتھے۔ ان کا بیان ہر اعتبار سے معتبر ہے۔ ہاشمی صاحب یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اہلِ حدیث کا مسلک حاضری مدینہ کی راہ میں مانع ہے، جو محض اتہام ہی ہے۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ تین مقامات کے لیے باقاعدہ
[1] سلسلہ اشرف الانساب (ص: ۲۰۷، ۲۰۸)