کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 515
اسحاق کی سخت عسرت اور تنگ دستی کا زمانہ تھا۔ مولانا ابراہیم جب اس واقعے کو سناتے تو آب دیدہ ہو جاتے۔ آخر مولانا کو مظفر پور میں ایک وکیل کے پاس نہایت قلیل مشاہرہ پر رکھوا دیا۔ اس کی خبر جب سیّد نذیر حسین دہلوی کو ہوئی تو انھوں نے ۳۵ روپیہ ماہوار پر مدرسہ بنگلور جانے کے لیے لکھ بھیجا۔ مولانا کو دور دراز جانا پسند نہیں تھا، مگر اپنے استاد کے حکم کی تعمیل میں بنگلور تشریف لے گئے۔
بنگلور میں مولانا کا قیام زیادہ عرصہ نہیں رہا۔ یہاں انھوں نے ’’مدرسہ نصرۃ الاسلام‘‘ بنگلور میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ مدراس میں ۱۹۱۸ء میں آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کے سالانہ جلسے کا انعقاد ہوا، جس میں خطبہ استقبالیہ میں مولانا فضل اللہ مدراسی نے جنوبی ہند کی تاریخ اہلِ حدیث میں مولانا سید اسحاق بڈوسری کی خدمت تدریس کا بھی ذکر کیا۔ [1]
تنخواہ کی تقسیم:
مولانا نے اپنی تنخواہ اس طرح تقسیم کر رکھی تھی۔ ۱۰ روپیہ اپنی اہلیہ کو دیتے، ۵ روپیہ اپنی صاحبزادی کی پرورش کے لیے، ۳ روپیہ اپنی والدہ بزرگوار کو، ۳ روپیہ اپنے ماموں زاد بھائی اور شاگرد مولوی اصغر حسین کو، ۳ روپیہ خلیفہ ضامن علی کو جنھوں نے لڑکپن میں مولانا کو پڑھایا تھا، ۲ روپیہ برادری کی غریب بیوہ عورتوں کو، ۵ روپیہ سفرِ حج کے لیے منشی نجم الدین رجہتی کے پاس جمع کراتے اور بقیہ ۴ روپے اپنے استعمال میں لاتے۔ بنگلور میں قیام کے دوران میں ہر سال ماہِ رمضان المبارک میں گھر تشریف لاتے۔
تلامذہ:
مولانا اسحاق کی پوری زندگی درس و تدریس سے معمور رہی۔ تلامذہ میں مولانا عبد الحفیظ رجہتی گیاوی، مولانا عبد النور دربھنگوی، مولانا اصغر حسین گیاوی، مولانا شاہ عبدالعزیز آزاد گیاوی، مولوی عبد اللہ دوسوتی گیاوی، مولانا حکیم محمد ظہیر گیاوی، سیّد ضمیر الدین عرشؔ گیاوی، مولانا محمد ذاکر مدرس مدرسہ حیدر آباد دکن اور سیّد فرخ حسین گیاوی وغیرہم شامل ہیں ۔
[1] اہلِ حدیث کانفرنس دہلی کی سالانہ روداد، اکتوبر ۱۹۱۷ء تا اکتوبر ۱۹۱۸ء (ص: ۵)