کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 514
الفت حسین صاحب کے بھانجے اور منصف سید علیم الدین صاحب ساکن رجہت کے خویش (داماد) تھے۔ قاضی مولانا سید عبد الحفیظ، مولوی محمد اصغر حسین ابنائے قاضی الفت حسین وغیرہ آپ کے شاگرد تھے۔ موضع رجہت میں مذہب اہلِ حدیث کی داغ بیل مولانا محمد اسحاق محدث نے ڈالی اور مسجد اہلِ حدیث رجہت کی بنیاد رکھی، جب کہ آپ کے آبائی گاؤں بدوسر میں آپ کی پذیرائی نہیں ہوئی۔‘‘[1] ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : ’’موضع رجہت و اطراف و اکناف میں وہابیت کے بانی مبانی یہی مولانا اسحاق محدث رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ جناب عبد الحفیظ صاحب رجہتی و حکیم مولانا محمد ظہیر صاحب رجہتی بانی مدرسہ اہلِ حدیث شہر گیا آپ کے شاگرد تھے۔ بانی ہادی ہاشمی ہائی انگلش اسکول گیا سید عبد الہادی ہاشمی کے والد اور جناب پروفیسر عبد الماجد صاحب اخترؔ پچروکھی کے خسر سیّد فرخ حسین صاحب نے مسلکِ وہابیت آپ ہی کی تلقین سے اختیار فرمایا تھا۔ موضع رجہت میں وہابی مسجد کی بنیاد بھی مولانا اسحاق صاحب ہی نے رکھی۔‘‘[2] ابتلاء و مصائب اور بنگلور روانگی: گیا میں مولانا کو متعدد مشکلات پیش آئیں ۔ اہلِ بدعت درپہ آزار رہے۔ کاروبار میں خسارہ رہا، حتیٰ کہ اپنی کپڑے کی دکان بند کرنی پڑی۔ اسی زمانے میں سیّد میاں نذیر حسین دہلوی آرہ تشریف لائے۔ انھوں نے مولانا ابراہیم آروی اور مولانا عبد العزیز رحیم آبادی سے فرمایا: ’’تم لوگوں نے اپنے بھائی مولوی اسحاق کو گیا میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ پھر مولانا اسحاق کی خبر گیری کرنے کی خصوصی تاکید کی۔ مولانا ابراہیم گیا تشریف لائے اور مولانا اسحاق کو اپنے ساتھ مظفر پور لے گئے۔ وہاں چندہ کے روپے سے کچھ دینے لگے جس پر مولانا اسحاق بہت دل گرفتہ ہوئے اور فرمایا: ’’آپ نے کیا سمجھا جو یہ روپیہ دیتے ہیں ؟ اگر ہم کو اس کا علم ہوتا تو ہم آپ کے ساتھ نہ آتے۔‘‘ حالانکہ وہ زمانہ مولانا
[1] سلسلہ اشرف الانساب (ص: ۱۸۹) [2] سلسلہ اشرف الانساب (ص: ۲۰۸)