کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 513
دونوں اصحاب مولانا کو ’’میرے مولوی محمد اسحاق‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
غیبت سے نفرت:
ایک مرتبہ مولانا عبد الحفیظ ایک متعصب عالم کے ستم کشیدہ حاضر ہوئے اور ان کی شکایت کرنے لگے، مگر مولانا اسحاق خاموش رہے، جس پر انھوں نے استفسار کیاتو فرمایا:
’’تم غیبت کر رہے ہو، اس لیے تمھاری باتوں کی طرف میرا دھیان نہیں ہے اور ہم کچھ سن نہیں رہے ہیں ۔‘‘
مولانا عبد الحفیظ نے عرض کیا کہ پھر آپ مجھے روک دیتے، فرمایا:
’’تم ان کے ستائے ہوئے اور مظلوم ہو۔ تمھاری مسجد تک جلوا دی۔ اگر میرے سامنے بھی اپنے دل کے بخارات و ظلم و ستم کو ظاہر نہ کرو گے تو اور کس کے سامنے بیان کرو گے، اس لیے تمھاری دل شکنی کے لحاظ سے تم کو روک دینا مناسب نہ جانا۔‘‘
حالانکہ وہ متعصب عالم، مولانا اسحاق کے سخت ترین مخالف تھے اور مولانا کی بد گوئی میں ہمیشہ لگے رہتے تھے۔
درس و وعظ:
مولانا عبد الحفیظ لکھتے ہیں :
’’آپ جس وقت نماز پڑھاتے یا حدیث شریف کا درس دیتے یا وعظ و تذکیر فرماتے، اس وقت لوگوں پر ایک عجیب کیفیت و محویت طاری ہوتی تھی۔ دنیا بالکل سرد ہو جاتی تھی اور ایک خاص حظ معلوم ہوتا۔ آپ کا وعظ سادہ محض قرآن و حدیث ہوتا تھا۔‘‘[1]
ضلع گیا میں تحریکِ اہلِ حدیث:
مولانا اسحاق گیا میں تحریکِ اہلِ حدیث کے بانیوں میں سے تھے۔ گیا کا ایک مقام رجہت مولانا کی دعوت و تبلیغ کا خاص مرکز تھا۔ سید ابو ہریرہ وراثت رسول ہاشمی لکھتے ہیں :
’’آپ کا ننھیال اور سسرال دونوں رجہت تھا۔ آپ قاضی اللہ بخش کے نواسے قاضی
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ مئی ۱۹۲۰ء