کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 512
پڑھ کر جاتے گئے، لیکن مولوی اسحاق ایسا آدمی نہیں آیا۔‘‘ عرض کیا گیا: حضور ان میں ایسا کون سا وصف تھا؟ فرمایا: ’’علم میں تو تم جیسے تھے، مگر زہد و تقویٰ میں سب پر فائق تھے۔‘‘[1]
ان کی تقویٰ شعاری سے متعلق حضرت میاں صاحب ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں :
’’ایک مرتبہ مولوی اسحاق کا کپڑا بالکل شکستہ ہو گیا تھا۔ پیوند پر پیوند کثرت سے لگے ہوئے تھے اور کبھی وہ کسی سے کچھ مانگتے نہیں تھے۔ ہم نے رات کو سوتے وقت ان کی نظروں سے چھپا کر پانچ روپے ان کے بدھنی[2] میں ڈال دیے۔ صبح کو وضو کرنے کے وقت مولوی اسحاق روپیہ لیے ہوئے میرے پاس لرزاں آئے اور روپیہ رکھ کر کہنے لگے: معلوم نہیں کس نے میرے بدھنے میں یہ روپے ڈال دیے ہیں ۔ ہم نے کہا: بے مانگے اللہ نے تم کو بھیج دیے ہیں ، کام میں لے آؤ۔ وہ لینے سے انکاری ہوئے تو ہمیں کہنا پڑا کہ ہم نے ڈال دیے تھے، کپڑے بنا لو۔‘‘[3]
ایک دفعہ مسجد رجہت (گیا) کے مؤذن لعل محمد نے مولانا اسحاق سے ایک پرانے کرتے کا سوال کیا۔ مولانا نے اپنا نیا کرتہ بدن سے اتار کر دے دیا اور دوسرا نیا کرتہ زیبِ تن فرمایا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی اتار کر دے دیا، پھر تیسرا پہنا اور وہ بھی اتار کر دے دیا، پھر چوتھا پہنا۔ مولانا کے عزیز اور تلمیذِ رشید مولانا عبد الحفیظ نے استفسار کیا تو فرمایا:
’’پہلا کرتہ دینے پر نفس کو خلاف ہوا اور یہ خیال ہوا کہ سال کے لیے چار کرتے بنوائے تھے، اب سال کیسے کٹے گا۔ ہم نے دوسرا دے دیا۔ پھر بھی یہی خیال ہوا، تیسرا دے دیا۔ اب صرف ایک رہ گیا اور نفس کو اطمینان ہو گیا کہ خدا دینے والا ہے۔‘‘[4]
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی اور علامہ عبد العزیز رحیم آبادی فرماتے تھے:
’’مولوی اسحاق صاحب کو ہم لوگوں نے پہچانا تھا، دوسرا ان کو کیا جانے۔‘‘
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ مئی ۱۹۲۰ء
[2] اس کا مماثل لوٹا سمجھنا چاہیے۔
[3] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ مئی ۱۹۲۰ء
[4] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ مئی ۱۹۲۰ء