کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 511
صاحب نے آپ کو میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے پاس دہلی بھیج دیا۔‘‘[1] لیکن یہ بیان درست نہیں ۔ اوّلاً تو اس کی تائید مولانا عبد الحفیظ کے بیان سے نہیں ہوتی جو مولانا اسحاق کے ماموں زاد بھائی اور تلمیذِ رشید تھے، بلکہ مولانا عبد الحفیظ کے بیان کے برعکس ہے۔ ثانیاً مولانا عبد الغفار گیا کے مشہور حنفی عالم تھے اور اپنے مسلک میں بڑے متصلب تھے، اس لیے ممکن نہیں کہ وہ کسی کو کسبِ علم کے لیے میاں نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں بھیجیں ۔ تکمیلِ علم کے بعد: تکمیلِ علم کے بعد اپنی جائے سکونت پہنچے، جہاں چند طلابِ علم بھی متوکلاً علی اللہ حاضر ہوئے۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کیا، پھر شہر گیا میں اقامت گزیں ہوئے۔ جہاں کپڑے کی دکان کی، جس کی انجام دہی کارندوں کے سپرد کی اور خود درسِ علم میں مشغول ہو گئے۔ گیا میں ایک مسجد اور ایک قطعہ مکان محلہ مملکوٹ گنج میں بنایا تھا اور بعد میں اس مکان کو مرمت کروا کر مسجد کے لیے وقف کر دیا تھا، لیکن اسے کسی نے غصب کر لیا۔ عادات و خصائل: مولانا اسحاق نماز ہمیشہ اوّل وقت پڑھا کرتے تھے۔ شب زندہ دار تھے۔ پوری زندگی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ کوئی کتاب بغیر مطالعے کے نہیں پڑھاتے تھے۔ علم میں جس قدر فائق تھے، اس سے کہیں بڑھ کر زہد و اتقا میں ذی مرتبت تھے۔ کذب گوئی اور غیبت سے فطری نفرت تھی۔ ابتلاء و مصائب میں بھی ملول خاطر نہ ہوتے تھے۔ مالی حالت مخدوش تھی، لیکن جذبۂ سخاوت ایسا تھا کہ کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے۔ زہد و تقویٰ: مولانا ایسے زاہد و عابد تھے کہ ان کے استاذِ گرامی حضرت سیّد میاں نذیر حسین محدث دہلوی فرماتے تھے: ’’میرے یہاں بہت سے شاگردان دور دور ملکوں کے پورب سے اور پچھم سے آئے اور
[1] سلسلہ اشرف الانساب (ص: ۱۸۹)