کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 51
ابو الطیب شمس الحق بن امیر علی بن علی بن حیدر الصدیقی کی یاد تازہ ہوتی رہے گی۔ کچھ زیادہ دن کا قصہ نہیں ہے کہ بہار کا یہ چھوٹا سا خطہ علمِ حدیث کی ضوفشانیوں سے بقعۂ نور بنا ہوا تھا، یہیں التعلیق المغنی علی سنن الدارقطنی، غایۃ المقصود اور عون المعبود جیسی اہم کتابیں لکھی گئیں ۔‘‘[1]
مولانا ابو الحسنات ندوی لکھتے ہیں :
’’ڈیانواں : یہاں مولانا شمس الحق صاحب محدث، مولوی حافظ نور احمد صاحب اور مولوی محمد زبیر صاحب مشہور اربابِ علم و دولت تھے۔ اول الذکر وہ مایہ ناز ہستی ہے جس پر اس آخری دور میں ہندوستان جس قدر چاہے فخر کر سکتا ہے۔ تمام عمر خدمت علمِ حدیث میں بسر کر گئے۔ تحصیلِ حدیث کے لیے آپ کے ہاں اکثر مدنی، یمنی اور نجدی عرب طلباء آتے تھے۔ مرحوم نے فنِ حدیث میں سنن ابی داود کی وہ بہترین شرح لکھی جس کو پڑھ کر عرب و عجم کی زبان سے بے ساختہ صدائے تحسین و آفرین بلند ہوئی۔ التعلیق المغنی علی الدارقطنی بھی مرحوم کی عمدہ تصنیف ہے۔ آخر الذکر افسوس ہے کہ جلد اس دنیا سے رخصت ہوگئے، معقولات اور اقلیدس میں یہ خاص طور پر مہارت رکھتے تھے۔‘‘[2]
دسویں اور گیارھویں صدی ہجری کے ایک بزرگ ملا محمد چاند نے ڈیانواں کو بسایا۔ وہ نسباً صدیقی تھے۔ سلسلۂ نسب حسبِ ذیل ہے:
’’ملا شیخ محمد چاند بن شیخ پھول بن شیخ مالک بن شیخ ظہور بن شیخ غنی بن شیخ عبداللہ بہادر
بن شیخ محمد حاجی بن شیخ عبدالملک بن شیخ مخدوم الملک بن شیخ عبدا لسلام بن شیخ محمد بخاری بن شیخ عبدالقیوم بخاری بن شیخ اسداللہ بدایونی بن شیخ عبدالعلیم مدنی بن شیخ عبدالمزید بخاری بن شیخ ابی عبداللہ مدنی بن حیدر شجاع مدنی بن عبدالقادر مدنی بن عبدالعالم مشہدی بن علی عبداللہ مدنی بن عبدالرحمن الفقیہ بن قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔‘‘[3]
[1] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) فروری ۱۹۵۱ء
[2] ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں (ص: ۴۷)
[3] یادگار گوہری (ص: ۶۰)