کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 509
بن حسن ثانی بن علی موسیٰ ثانی بن علی بن محمد بن محمد حسن بن سیف احمد بن ابی نصر محی الدین ثانی بن شمس الدین ابو صالح نصر بن ابی بکر عبد الرزاق بن شیخ عبد القادر جیلانی۔‘‘[1] ان کے اجداد میں سے ایک بزرگ حضرت ابو محمد عطاء اللہ بغدادی جیلان سے بہار تشریف لائے۔ ان کے احفاد میں سے ایک بزرگ مولانا محمد جعفر کو مغل بادشاہ نے ایک ہزار بیگہہ اراضی عطا کی تھی۔ انھوں نے اپنی جاگیر میں سکونت اختیار کی اور اس کا نام بدوسر رکھا۔ مولانا کے نانا بزرگوار قاضی اللہ بخش بن قاضی محمد ارشدپرگنہ پچروکھی کے منصبِ قضا پر فائز تھے۔ ۱۸۴۵ء میں ان کی وفات ہوئی۔ مولانا اسحاق صرف ایک ماہ کے شیر خوار تھے کہ والد ماجد نے اس دنیائے دوں سے رخصت لے کر عدم کی راہ لی۔اس طرح مولانا کا بچپن آغوشِ مادر میں لیکن شفقتِ پدری سے محروم گزرا۔ ولادت: مولانا کی ولادت ان کے ماموں قاضی الفت حسین رئیس رجہت ( گیا) کے مکان میں تقریباً ۱۲۶۶ھ میں ہوئی۔ ابتدائی حالات: مولانا عالمِ شیر خوارگی ہی میں یتیم ہو چکے تھے۔ والدہ بوجۂ غربت پرورش و کفالت سے عاجز تھیں ، لہٰذا ان کے ماموں قاضی الفت حسین نے انھیں اپنے سایۂ عاطفت میں لیا اور نہایت شفقت و محبت کے ساتھ پرورش کی۔ رجہت میں ابتدائی تعلیم خلیفہ ضامن علی سے حاصل کی اور ’’سکندر نامہ‘‘ تک پڑھا۔ رشتۂ ازواج: ابھی چمنستانِ حیات کی پندرھویں بہار ہی تھی کہ حاجی سیّد محمد علیم الدین صاحب منصف عدالت رجہت نے مولانا اسحاق کی شرافتِ نفسی، خوش خلقی اور طہارتِ قلبی کو محسوس کر کے اپنی صاحبزادی مولانا کے حبالۂ عقد میں دے دی۔
[1] یہ سلسلۂ نسب ’’سلسلہ اشرف الانساب‘‘ (ص: ۱۹۴ تا ۱۹۷) سے ماخوذ ہے۔