کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 501
ستمبر ۱۹۳۵ء بمطابق یکم رجب المرجب ۱۳۵۴ھ میں وفات پائی۔ ان کے صاحبزادے ڈاکٹر ولی الحق ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) کے قارئین کو اطلاع دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’آہ! میرے والد ماجد حاجی مولوی حکیم ابو الخیر محمد ضمیر الحق صاحب آروی ۲۹ ستمبر کو سات بجے شب انتقال فرما گئے ۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ مرحوم پکے موحد اور سچے متبع سنت ہونے کے علاوہ ہمہ صفت موصوف تھے۔ خدا بخشے بہت بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں ۔‘‘[1] مولانا مرحوم کے ورثا کی خواہش تھی کہ ان کا جنازہ غائب حرمین شریفین میں ہو۔ شیخ احمد دہلوی مہاجر مدنی ’’دار الحدیث ‘‘ مدینہ طیبہ کے بانی و ناظم تھے، انھوں نے مسجدِ نبوی میں مولانا کا جنازہ غائب پڑھوایا۔[2] دعا ہے کہ اللہ اس نیک طینت مخلص عالم کو روزِ حشر انبیاء اور صدیقین کی معیت نصیب فرمائے۔ آمین[3] 
[1] ہفت روزہ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۱ اکتوبر ۱۹۳۵ء [2] ہفت روزہ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ فروری ۱۹۳۶ء [3] مولانا حکیم ضمیر الحق قیسؔ آروی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: جذباتِ قیسؔ، لسان الصدق (ص: ۱۲۸)، خم خانہ جاوید (۵/۳۷۸)، مقامِ محمود (ص: ۱۲۰)، تذکرہ علمائے حال (ص: ۳۳)، ماہنامہ ’’ندیم ‘‘ (گیا) نومبر ۱۹۴۰ء (مضمون نگار: غلام ربانی عظیم آبادی)، مسلم شعرائے بہار (۴/۳۷۔۴۰)، تاریخ اطبائے بہار (۲/۱۲۴۔۱۲۶)، تذکرہ علمائے بہار (۱/۲۹۶)