کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 500
طرزِ رشکؔ و منیرؔ کو زندہ کرنے والے ہیں ، ان کی قدر وہی جانتے ہیں جو مذاقِ صحیح رکھتے ہیں ۔ نا اہل سے ہمیں کلام نہیں ، صاحبانِ ذوق سے انصاف طلب ہیں ۔‘‘[1]
مولانا عبد المالک آروی کا تاثر:
مولانا عبد المالک آروی لکھتے ہیں :
’’آرہ کے دورِ جدید کے لیے مولانا حکیم ضمیر الحق صاحب قیسؔ کی زندگی بہت غنیمت ہے، آپ ایک بڑے عالمِ دین کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار طبیب بھی ہیں اور ایک کہنہ مشق شاعر بھی۔ آپ کا حلقۂ مسترشدین گو چنداں وسیع نہیں ، چونکہ آپ ایک اہلِ حدیث عالم ہیں پھر بھی مغرب کے بعد آپ روزانہ قرآن و حدیث کا درس دیا کرتے ہیں ، چند روز خاکسار بھی اس حلقۂ استرشاد میں شریک رہا ہے، مطب کی یہ شہرت ہے کہ دروازہ پر لوگوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ آرہ کی خموش علمی زندگی کی یہ آخری شمع معلوم ہوتے ہیں ۔ خدا کرے آپ کا سایہ نورانی ایک عرصہ تک رہے۔ خمخانہ[2] کی تاریخ میں جو آپ نے اشعار کہے ہیں ، ان سے آپ کے ذوقِ شاعری اور بلند تخیل پر روشنی پڑتی ہے۔‘‘[3]
اخلاف:
مولانا کے ایک بیٹے عبد الحق (پ ۱۸۸۴ء )تھے جن کی قطعہ تاریخ پیدائش ’’جذباتِ قیسؔ‘‘ میں موجود ہے۔ ایک بیٹے ڈاکٹر ولی الحق تھے جنھوں نے تقسیمِ ہند کے بعد ڈھاکہ میں سکونت اختیار کر لی تھی اور وہاں مشرقی پاکستان ریلوے کے محکمے سے ایم او ہو کر ریٹائر ہوئے تھے۔ ایک نواسے قاضی مسعود اشرف کا ذکر ملتا ہے جو کوئیلور میں آنریری مجسٹریٹ رہے تھے۔
وفات:
بہار کے اس جلیل المرتبت اہلِ حدیث عالم، حاذق طبیب اور صاحبِ دیوان شاعر نے ۲۹
[1] ’’جذبا تِ قیسؔ‘‘ (ط۔ی)
[2] امیر حسن بدرؔ آروی کا مجموعۂ کلام
[3] ’’مقامِ محمود‘‘ (ص: ۱۲۰)