کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 499
دیکھنے سے مولوی صاحب کی قادر الکلامی کا عمدہ ثبوت ملتا ہے۔ تنزلِ اسلام کے وجوہ اور علماء کی تعریف نہایت عمدگی سے کی ہے اور اس کو اچھی طرح دکھلایا ہے کہ علماء کے بگڑنے سنورنے پر قوم کا بگڑنا اور سنورنا موقوف ہے۔‘‘[1]
خواجہ عشرتؔ لکھنوی کے تاثرات:
خواجہ عبد الرؤف عشرتؔ لکھنؤی ’’جذباتِ قیسؔ‘‘ کے مقدمہ میں اپنے ذاتی تاثرات رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’تقریباً کچھ کم و بیش چالیس برس کا ذکر ہے کہ بصیغہ تجارت آرہ میں میرا جانا ہوا اور چندے متواتر جاری رہا، جناب قیسؔ سے شرفِ نیاز مندی حاصل ہوا۔ آپ کے علمی مشاغل دیکھے، مطب کا ہجوم دیکھا، مرضا کا رجوع دیکھا، شعر و شاعری کا شوق دیکھا، اچھی سوسائٹی کا جماد دیکھا، لوگوں کا آپ سے باحترام ملنا دیکھا۔ اس زمانے میں شاعری کا اس شہر میں بہت چرچا تھا۔ منشی محمد اسماعیل صاحب مختار مہرؔ، مولوی سیّد امیر حسن صاحب بدرؔ، سید قمر الدین حیدر صاحب قمرؔ اور خدا جانے کن کن شعرا سے نیاز حاصل ہوا، جن کا نام بھی یاد نہیں ۔ پھر غالباً سولہ سترہ برس ہوئے ہوں گے کہ گیا کے مشاعرے میں بھی جناب قیسؔ سے ملاقات رہی۔
’’مولانا کی کنیت ابو الخیر نام مولوی حکیم محمد ضمیر الحق صاحب تخلص قیسؔ ہے اور مولانا شمشاد کے صحیح جانشیں ہیں ۔ طرزِ کلام اور طرزِ ادا دونوں میں مولانا شمشادؔ مرحوم کا رنگ ہے۔ شاعری کے جملہ علوم کے فاضل، ۱۲۸۰ھ کے آخر میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کے جدی مورثِ اعلیٰ سیّد یوسف سدیسو پوری ساداتِ بہار میں ممتاز درجہ رکھتے تھے اور حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے ننھیالی رشتہ ملتا ہے، یعنی دونوں طرف سے سیّد عالی نسب اور درّ یکتا ہیں ۔ شرافت نورٌ علیٰ نور ہے۔ ایسی متبرک صحبتیں کہاں میسر آتی ہیں ۔ اخلاق میں اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ شاعری معائب سے پاک
[1] ’’لسان الصدق‘‘ (ص: ۱۲۸)