کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 498
نگرانی میں ترتیب دلوانا شروع کیا۔ تھوڑا سا کام باق رہ گیا تھا کہ سفرِ حجاز پیش آ گیا۔ فرمایا:
اگر خیریت سے آگیا تو ترتیب پوری کر دوں گا، ورنہ مسالہ تیار ہے ترتیب دلوا کر اپنی آرزو پوری کر لینا۔‘‘
۱۳۵۱ھ میں بخیریت واپس تشریف لائے اور باقی ماندہ دیوان مرتب کیا۔ اگست ۱۹۳۵ء بمطابق ۱۳۵۳ھ میں ستارہ ہند پریس کلکتہ سے مولانا کا دیوان چھپ کر منظرِ شہود پر آیا اور صرف ایک ماہ بعد، یعنی ۲۹ ستمبر ۱۹۳۵ء کو مولانا کی خود اپنی شمع حیات ہمیشہ کے لیے بجھ گئی۔
’’جذباتِ قیسؔ‘‘ کا تاریخی نام ’’بہارستانِ خلد‘‘ ہے۔ صفحات کی تعداد ۳۴۲ہے۔ اس کا مقدمہ مولانا کے مشہور معاصر شاعر و نثر نگار خواجہ عبد الرؤف عشرتؔ لکھنوی نے لکھا۔ دیوان کا آغاز مولانا نے اپنے استاذِ حدیث شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی کے قصیدے سے کیا۔ یہ قصیدہ انھوں نے ۱۳۰۳ھ میں مولانا کی خدمت میں اخذِ علم کی سعادت حاصل کرنے کے زمانے میں لکھا تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا قیسؔ کے دل میں اپنے عالی مرتبت استاد کی کیا قدر و منزلت تھی۔
’’جذباتِ قیسؔ‘‘ پر اس عہد کے کبار اساتذۂ سخن نے قطعاتِ تواریخ لکھے، جن میں فضل حق آزادؔ عظیم آبادی، خواجہ عشرتؔ لکھنوی، نوحؔ ناروی، علامہ تمناؔ عمادی پھلواروی،احسنؔ مارہروی، فضل الرحمان باقیؔ غازی پوری، مولانا محمد یعقوب برقؔ عظیم آبادی، ثاقبؔ لکھنوی، حافظ عبد اللہ حافظؔ مشکی پوری اور رضا علی وحشتؔوغیرہم شامل ہیں ۔
مسدسِ قیسؔ:
مولانا ضمیر الحق اپنے معاصر بزرگ عالم مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کی تحریک اصلاحِ تعلیم کے پر زور موید تھے۔ ’’مدرسہ احمدیہ ‘‘ کے رکن تھے اور ’’جلسہ مذاکرہ ‘‘میں بالالتزام شرکت کیا کرتے تھے۔ اس کے سالانہ جلسوں میں مسلسل دو سال تک ایک ایک مسدس پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ دونوں مسدس ایک ساتھ ’’مسدسِ قیس‘‘ کے عنوان سے ۱۹۰۳ء میں آرہ سے طبع ہوئے۔مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں :
’’جناب مولوی حکیم ضمیر الحق صاحب قیسؔ آروی کے یہ دو مسدس ہیں جو انھوں نے ۱۹۰۱ء اور ۱۹۰۲ء کے جلسہ مذاکرہ علمیہ میں پڑھ کر سنائے تھے۔ ان دونوں مسدسوں کے