کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 497
نمونۂ کلام کے طور پر چند متفرق اشعار ملاحظہ ہوں : طور ہی پر نہیں موقوف نظارہ تیرا چشمِ بینا ہو تو ہر شے میں ہے جلوہ تیرا دیکھنے ہی کے بہانے سے چلے آتے کبھی کیا نہ تھی تم پر عیادت فرض کچھ بیمار کی قیسؔ نے جان محبت میں تڑپ کر دے دی اور منت کش اعجاز مسیحا نہ ہوا مانا کہ تم کو غیر کی خاطر عزیز تھی لیکن یہ کیا کیا جو مرا دل دکھا دیا سر کاٹ کے ناحق کفِ افسوس ملو گے دیکھو گے مرا خون تو آئے گی حنا یاد عرض حال دل بیتاب کی صورت نہ بندھی بے خودی میں کبھی لکھا کبھی پھاڑا کاغذ درد بھی دل میں اگر اٹھے تو کچھ لذت کے ساتھ جس مصیبت میں مزہ ہو وہ مصیبت چاہیے کانوں تک آپ کے مرے نالے نہ جا سکے پھیر لگا کے رہ گئے روزن کے آس پاس سفرِ حج: حجِ بیت اللہ اور زیارتِ حرمین کا بہت شوق تھا۔ خود ہی فرماتے ہیں : یا الٰہی جلد حاصل ہو مسرت دید کی بار مجھ پر انتظارِ روز فردا ہو گیا دیکھوں ہوتی ہے مدینے کی زیارت کب نصیب میں اسی ارماں اسی حسرت میں بوڑھا ہو گیا آخر مولانا کی یہ حسرت تکمیل پذیر ہوئی اور ۱۳۵۰ھ میں انھیں یہ دولت نصیب ہوئی۔ جذباتِ قیسؔ: مولانا خود اپنی شاعری کے قدر شناس نہیں تھے۔ احباب کی طرف سے دیوان کی طباعت کا شدت سے اظہار ہوتا تھا، مگر مولانا ٹال جاتے تھے۔ ۱۳۵۰ھ میں سفرِ حجاز کی تیاری ہونے لگی تو احباب نے بشدت تمام تقاضا کیا کہ ترتیبِ دیوان کر کے جائیں ، آخر راضی ہوئے۔ بہت سی غزلیں ضائع ہو چکی تھیں ۔ بعض بوسیدہ حالت میں مختلف دفینوں سے نکلیں ، بعض کا پڑھنا آسان نہیں تھا۔ بہر حال اپنی