کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 496
’’آپ کا شمار آرہ کے حاذق اطباء میں تھا۔ مطب بڑا کامیاب تھا۔ مطب کی مشغولیت کے باوجود درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ آپ ایک وقت طلبا کو منطق، فلسفہ، تفسیر و حدیث کی تعلیم دیتے اور دوسرے وقت فنِ طب کے شائقین کو طب علمی و عملی کی مشق کراتے تھے۔ آپ کے شاگردوں میں جید علماء اور ماہرِ فن اطبا کی کثیر تعداد ہے۔ عوام و خواص میں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ شہر میں بڑی عزت و منزلت تھی۔‘‘[1] مقدمہ آرہ: آرہ میں ایک اہلِ حدیث مسجد تھی، جس کے مہتمم مولانا ضمیر الحق تھے۔ ۱۳ مئی ۱۹۳۲ء کو بعض بریلوی مزاج احناف نے چاہا کہ اس مسجد میں ذکر الشہادتین کی مجلس آراستہ ہو۔ مقامی اہلِ حدیث آبادی نے سمجھایا کہ اس مسجد میں ان امور کی اجازت نہیں ، لیکن یہ معاملہ یونہی رفع دفع نہ ہوا، بلکہ فوجداری مقدمے تک نوبت جا پہنچی۔ مولانا ضمیر الحق اس مقدمے میں اہلِ حدیث کی جانب سے ایک فریقِ مقدمہ کی حیثیت سے پیشوائی کرتے تھے۔[2] شاعری: ابتدا ہی سے شعر و شاعری سے رغبت تھی۔ رموز و نکاتِ شاعری سے آگاہ تھے، اندازِ سخن پاکیزہ اور اسلوبِ بیان سادہ و فطری تھا۔ تشبیہ و استعارے کا استعمال اور ردیف اور قافیہ کی عمدگی کے ساتھ شراکت، اشعار میں حلاوت اور تخیل میں نزاکت، کلامِ قیسؔ کی نمایاں خوبیاں ہیں ۔ ابتدا میں ضمیرؔ تخلص فرماتے تھے مگر جلد ہی قیسؔ تخلص کرنے لگے اور شاعری میں یہی پہچان بنا۔ لالہ سری رام نے اپنی مشہور کتاب ’’خم خانہ جاوید‘‘ میں ضمیرؔ ہی کے ذیل میں مولانا کا تذکرہ لکھا ہے۔ لالہ سری رام نے حضرت بقاؔ غازی پوری کو بھی مولانا کا استاذِ سخن لکھا ہے،[3] لیکن یہ درست نہیں ۔ بقا ؔغازی پوری، جناب قیسؔ آروی کے رفیقِ درس اور جلیس تھے۔
[1] تاریخ اطبائے بہار (۲/۱۲۵) [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۵ اگست ۱۹۳۲ء [3] ’’خم خانہ جاوید‘‘ (۵/۳۷۸)