کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 495
کسبِ علم: ۱۲۹۸ھ بمطابق ۱۸۸۱ء میں ’’مدرسہ چشمہ رحمت‘‘ غازی پور میں داخل ہوئے۔ یہاں علامہ حافظ عبد اللہ غازی پوری سے اخذِ علم کیا۔ رفقائے درس میں مولانا ظہیر احسن شوقؔ نیموی اور مولانا عبدالرحمن بقاؔ غازی پوری شامل تھے۔ غازی پور اس زمانہ میں عبد الاحد شمشادؔ لکھنوی کی وجہ سے شعر و سخن کا مرکز بنا ہوا تھا، یہیں مولانا قیسؔ کے فطری جوہر کھلے اور مولانا شمشادؔ لکھنوی سے شاعری میں اصلاح لینے لگے۔ غازی پور سے مولانا عبد الحی فرنگی محلی کی خدمت میں لکھنؤ تشریف لے گئے، ان سے فلکیات اور ’’ملا حسن کامل‘‘ کی تکمیل کی۔ مولانا فضل الرحمن فرنگی محلی سے رسالہ میر زاہد جلال پڑھی۔ چند وجوہات کی بناپر دوبارہ ’’مدرسہ چشمہ رحمت ‘‘ غازی پور میں داخل ہوئے اور پھر مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ ۱۳۰۳ھ بمطابق ۱۸۸۵ء میں دہلی تشریف لے گئے جہاں سند المحدثین سیّد میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے فنِ حدیث کی کتبِ متداولہ پڑھیں اور سندِ اجازہ سے مشرف ہو کر ۱۳۰۴ھ بمطابق ۱۸۸۶ء کو آرہ واپس تشریف لائے۔ یہاں رئیس الاطباء مولانا حکیم عبد السلام دہلوی ثم آروی سے علمِ طب کی تحصیل کی۔ ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ میں قاضی محمد بن عبد العزیز جعفری مچھلی شہری کا آرہ آنا ہوا تو ان کی خدمت میں حاضر ہو کر سند مسلسل بالاولیۃ حاصل کی۔ تکمیلِ علم کے بعد: مولانا تکمیلِ علم کے بعد آرہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ عوام الناس کے لیے وعظ و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا۔ مشغلۂ طبابت پوری زندگی جاری رہا، مریض آتے اور مولانا کے یدِ مسیحائی سے مستفید ہوتے۔ اس کے ساتھ ساتھ آرہ کی مجلسِ شاعری کے معزز رکن بھی تھے۔ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ اور ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کے متحرک رکن تھے۔ مشغلۂ طبابت: حکیم اسرار الحق لکھتے ہیں :