کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 492
تکمیل کے بعد طب پڑھ کر چھپرہ میں میں نے مطب شروع کیا۔ کسی مریض کے پاس گیا ہوا تھا، ایک ڈاکٹر بھی اس عرصہ میں بلایا گیا، مجھے دیکھ کر میرے منہ پر اس نے تیمار داروں سے کہا کہ اس نے مرض کی کیا تشخیص کی ہے؟ جو میری تشخیص تھی میں نے بیان کی جس پر ہنسا اور میری نا واقفیت کا اس نے مضحکہ اڑایا، مجھے اس کی یہ حرکت اتنی ناگوار گزری کہ مریض کے گھر سے مطب آیا، اسی وقت مطب کو بند کر کے میں نے کلکتہ کا ٹکٹ لیا، وہاں انگریزی شروع کی، انٹرنس پاس کیا۔ مقصود یہ تھا کہ اس کے بعد ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے اس ڈاکٹر کو جواب دوں گا، اب یہ محفوظ نہ رہا کہ ڈاکٹری بھی انھوں نے پڑھی یا نہیں ، لیکن اسی جھونک میں انٹرنس تک انگریزی تو پڑھ ڈالی۔‘‘[1] مولانا نے حیدر آباد دکن میں اقامت اختیار کی اور علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ قدیم کتابوں اور مخطوطات کا کاروبار بھی کیا۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی کا کتب خانہ علمِ حدیث اور دیگر شرعی علوم کے نوادرات پر مشتمل تھا۔ بے شمار مخطوطات ان کے کتب خانے کی زینت تھے۔ حصولِ کتب کا ایک اہم اور مستقل ذریعہ مولانا زین العابدین ہی تھے۔ مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری، علامہ عظیم آبادی کے حصولِ کتب کے ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’دوسرے مولانا زین العابدین تھے جن کا قیام حیدر آباد میں تھا، یہ بھی کتابیں فراہم کیا کرتے تھے۔ یہ وہی صاحب ہیں کہ جب مولانا محمد محی الدین جعفری زینبی نے کتاب الموتلف و المختلف و شبہ النسبۃ للحافظ عبد الغنی بن سعید الازدی الاموی (م ۴۰۹ھ) کے شائع کرنے کا خیال کیا تو ان کے پاس صحیح نسخہ نہیں تھا جس سے تصحیح کرتے، تو مولانا آروی ہی نے صحیح نسخہ بہم پہنچایا، اگرچہ بعد میں ان کو اور نسخے بھی دستیاب ہو گئے۔‘‘[2] سندھ کے مشہور عالمِ حدیث سیّد ابو تراب رشد اللہ راشدی سندھی کو بھی مولانا زین العابدین کتابیں مہیا کیا کرتے تھے۔
[1] ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت (۲/ ۴۲، ۴۳) [2] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) جولائی ۱۹۵۱ء