کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 488
سے آنسو جاری تھے اور رنج و الم سے باتیں کرنی دشوار تھیں ، تاہم ہچکیاں لے لے کر رقت بھرے لفظوں سے یہ فرمایا: بھائی مرحوم اپنے جیتے جی زندگی میں سفر حجاز کے قبل جناب مولانا حافظ عبد العزیز صاحب اپنے حقیقی بھانجی داماد کو اپنا جانشین بنا گئے ہیں اور اس میں یہ قید نہیں کہ اتنے دنوں کے لیے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیشہ کے لیے اور مولانا موصوف دو برس سے اس خدمت کو بحسن و خوبی انجام دے بھی رہے ہیں ۔ پس میری سعادت اور میرے غم غلط کرنے کی شکل اس سے بہتر نہیں کہ ان کے جانشین بنائے ہوئے کی پیروی کرتا رہوں ۔‘‘[1]
مولانا ادریس نے جس طرح ایثار سے کام لیا، وہ ان کے عظمتِ کردار کی روشن مثال ہے۔ پوری زندگی مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے معاون رہے۔ مدرسہ احمدیہ کے قیام و بقا میں مولانا ادریس کی خدمات گراں قدر ہیں ۔ اپنی وفات کے وقت وہ مدرسہ کے نائب مہتمم تھے۔ ان کی وفات کے بعد افسوس کہ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ اپنی سابق حالت میں قائم نہ رہ سکا۔ علامہ رحیم آبادی کو دربھنگہ میں ’’مدرسہ احمدیہ سلفیہ‘‘ قائم کرنا پڑا اور آرہ کی یہ بساطِ علمی الٹ گئی۔
انجمن ہمدرد اسلامی لاہور:
نواب صدیق حسن خاں اور مولانا محمد حسین بٹالوی کی رہ نمائی میں ۱۸۸۱ء میں قائم ہونے والی ’’انجمن ہمدرد اسلامی لاہور‘‘ کے بھی مولانا ایک ممتاز رکن تھے۔[2]
علم و فضل:
مولانا ادریس کس درجے کی شخصیت تھے؟ اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا یوسف رنجورؔ کے نام اپنے ایک مکتوب گرامی بابت ۱۲ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں لکھتے ہیں :
’’جناب مولانا ادریس صاحب کو میری جانب سے سلامِ شوق عرض کیجیے۔ میں ان کا غائبانہ نیاز مند ہوں ۔‘‘[3]
[1] ماہنامہ ’’ضیاء السنۃ‘‘ (کلکتہ) ربیع الثانی ۱۳۲۰ھ
[2] ماہنامہ ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ لاہور (جنوری ۱۸۸۲ء)
[3] مکاتیبِ ابو الکلام آزاد (۱/۷۵)