کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 487
اپنے بھائی کے نام لکھا، لکھتے ہیں : ’’پیارے ادریس! میں نے تم کو پالا ہے۔ واللہ تمھاری محبت میرے دل میں اولاد سے بہت زیادہ ہے۔ میرا دل تم کو یاد کر کے نہایت بے چین ہوجایا کرتا ہے، پھر میں اس وقت تمھارے لیے عجیب عجیب دعائیں کرنے لگتا ہوں ۔‘‘[1] مدرسہ احمدیہ آرہ: ۱۲۹۷ھ بمطابق ۱۸۹۰ء میں جب مولانا ابراہیم نے ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ کی بنیاد رکھی تو مولانا ادریس اس کے اہم ترین معاون رہے۔ جب آرہ ہی میں ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کے تحت ’’جلسہ مذاکرہ علمیہ‘‘ کے سالانہ جلسے ہونے لگے تو اس کے انتظامی امور میں بھی مولانا ادریس سرگرمی سے حصہ لیتے۔ مولانا ابراہیم نے دینی کتابوں کی نشر و اشاعت کی غرض سے آرہ میں ’’مطبع خلیلی‘‘قائم کیا۔ اس کے انتظام کی ذمے داری بھی مولانا ادریس کے سپرد تھی۔ مطبع خلیلی سے جو کتابیں طبع ہوتیں ، ان پر بحیثیت ناشر مولانا ادریس کا نام درج ہوتا تھا۔ ۱۳۱۸ھ میں مولانا ابراہیم نے حجازِ مقدس کی جانب مستقل ہجرت کی تو علامہ عبد العزیز رحیم آبادی (جو مولانا آروی کی حقیقی بھانجی کے شوہر تھے) کو مدرسے کا نگراں مقرر کر گئے۔ ۱۳۱۹ھ بمطابق ۱۹۰۰ء کو مولانا ابراہیم کی وفات ہوئی۔ اس خبرِ وحشت اثر سے نہ صرف آرہ شہر میں مولانا کے حلقۂ ارادت، بلکہ پورے ہندوستان کے اہلِ حدیث حلقوں میں بالعموم حسرت و یاس کی فضا چھا گئی۔ ۱۱ مئی ۱۹۰۲ء کو مولانا ابراہیم کی جانشینی کے حوالے سے آرہ میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا، جس میں اطراف و اکناف کے کبار علماء شریک ہوئے۔ ہر آنکھ نمناک اور ہر دل غمگین تھا۔ علامہ رحیم آبادی نے تحریک پیش کی کہ مولانا ادریس کو مولانا ابراہیم کا جانشین مقرر کیا جائے اور ان کے زیر سر پرستی مدرسے کے امور انجام دیے جائیں ۔ اس موقع پر مولانا ادریس نے جو موقف اختیار کیا وہ اخلاص و ایثار کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ مولانا محمد ہادی لکھتے ہیں : ’’واہ رے مولوی ادریس صاحب کی علو ہمتی اور بھائی کے عملی کاموں کی قدر دانی! گو آنکھوں
[1] ماہنامہ ’’ضیاء السنۃ‘‘ (کلکتہ) ربیع الثانی ۱۳۲۰ھ