کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 483
ردِ قادیانیت کے باب میں یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے جو مولانا ابراہیم کو حاصل ہوئی۔ حجازِ مقدس میں ہونے والا یہ پہلا اور آخری مباحثہ تھا جس کے بعد قادیانیت کے لیے سر زمینِ حجاز میں داخلے کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔ غیر مسلموں میں تبلیغِ اسلام کا ارادہ: مولانا کی جدت پسند طبیعت نے طرح طرح سے دینِ اسلام کی خدمت انجام دی۔ ان کی اوّلیات میں سے کئی باتیں ہیں ۔ غیر مسلمانوں میں اشاعتِ اسلام کے حوالے سے بھی انھوں نے غیر معمولی نوعیت کی خدمت انجام دینے کا ارادہ کیا۔ مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں : ’’عن قریب تبلیغِ اسلام کے لیے یورپ، افریقہ اور مریکہ جانے والے تھے اور تبلیغِ احکام کے لیے مصر، شام، روم اور عراق کا سفر کرنے والے۔ اس نقصان کی تلافی اب خدا ہی کے ہاتھ ہے کہ پھر ویسی جوشیلی طبیعت اور مضبوط ارادہ کا کوئی خاص بندہ پیدا کر دے، وما ذٰلک علی اللّٰه بعزیز‘‘[1] افسوس یہ ارادہ پردئہ حقیقت پر مرتسم نہ ہو سکا۔ تاریخِ وفات: دیارِ ہند کے اس جلیل القدر عالم، پُراثر مبلغ، ماہرِ تعلیم، صاحبِ طرز نثر نگار، مجاہد فی سبیل اللہ اور داعی الی اللہ نے ۶ ذی الحجہ ۱۳۱۹ھ[2] کو مکہ معظمہ میں وفات پائی اور اسی مقدس خاک میں ہمیشہ کے لیے جا ملے۔ بقول مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی: ’’اپنے تلبیۂ حج کے بدلے بارگاہِ صمدی میں خود حاضر ہونے کے لیے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اس دارِ فانی سے دار البقاء کو رحلت فرمائی اور جنت المعلیٰ کی متبرک زمین میں جگہ پائی۔‘‘[3]
[1] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۳۴۲) [2] مولانا کے سنۂ وفات سے متعلق بعض مختلف سنین لوگوں نے نقل کی ہیں : ۱۳۲۰ھ، ۱۳۲۱ھ، ۱۳۲۲ھ، ۱۳۳۹ھ اور ۱۹۲۰ء۔ لیکن یہ تمام سنین غلط ہیں ۔ [3] ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ (بمبئی)، اشاعتِ خاص ’’تعلیمی نمبر‘‘ دسمبر ۱۹۵۴ء، جنوری و فروری ۱۹۵۵ء