کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 482
مشکلات تھیں ، تقلید کی دبیز تہیں تھیں ، فقہ میں شافعیت، سلوک میں علویت، جیلانیت اور عقیدہ میں اشعریت، اس کے بر عکس یہاں علامہ آروی کے درس میں سیدھا سادہ اسلام تھا، کتاب اللہ کی واضح آیات تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح و صریح احادیث تھیں ، خیر القرون کا تعامل تھا، واضح اور جلی قیاس تھا، ہر جگہ محمدیت تھی، ہر جگہ سنیت تھی، ہر جگہ سلفیت تھی۔ آپ کے حساس دل نے دونوں کا مقابلہ کیا اور علامہ ابراہیم آروی کو نقدِ دل دے بیٹھے اور قبولِ حق کے بعد خاموش نہیں بیٹھ گئے، بلکہ شیخ احمد النجار کے پاس حاضری دی اور ان سے پوری بیباکی اور جراَتِ رندانہ کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ دن و رات حلقاتِ تصوف میں بیٹھ کر غلط قسم کے اوراد و وظائف اور حال و قال سے کچھ نہیں ہوتا، اگر اجر و ثواب کے طالب ہیں تو علامہ ابراہیم کے درس میں آئیے اور وہاں سے طریقۂ سنت اخذ کیجیے۔‘‘[1] اہلِ تشیع اور قادیانیوں سے مناظرہ: سعودی عرب کے شمالی اور مشرقی حصوں میں آج بھی اہلِ تشیع کی ایک نمایاں تعداد موجود ہے۔ مولانا ابراہیم جب حجازِ مقدس پہنچے تو خبر ملی کہ حجازِ مقدس میں بھی کچھ قادیانی عناصر سر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ قادیانیت کا شجرۃ الزقوم علانیہ اپنے عقائد کے ساتھ برگ و بار نہیں لا سکتا تھا۔ ایک گمراہ فرقے کی طرح تقیہ اور تبرا کی روش کے ساتھ ہی قادیانیت نے حجازِ مقدس میں داخل ہونے کی کوشش کی ہو گی۔ مولانا عبد الحمید رحمانی، شیخ محمد نصیف کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’شیخ نے ایک مرتبہ بتایا کہ علامہ آروی نے مکہ کے مشہور مطوف شیخ جمل اللیل کے گھر میں دو بار مناظرہ بھی کیا۔ ایک مرتبہ شیعوں سے اور ایک مرتبہ بعض قادیانیوں سے۔ شیخ محمد نصیف کے لیے مناظرہ نئی چیز تھی، اس لیے وہ اپنے چند احباب کے ساتھ جدہ سے مکہ خاص طور پر یہ مناظرے دیکھنے گئے تھے۔ دونوں مناظروں میں فتح علامہ آروی کی حلیف رہی۔‘‘[2]  ف مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی (۲/ ۲۱، ۲۲) ق مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی (۲/۲۳)
[1] سورۃ [2] سورۃ