کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 481
رہے تھے۔ غریب اور نادار بچوں کی کفالت ہو رہی تھی تو بیواؤں اور بوڑھوں کی مالی امداد بھی۔ یہ سب کچھ خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ مولانا کو ایسی اطلاعات پیہم مل رہی تھیں کہ ان پر گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور کسی بھی وقت ان کی گرفتاری عمل میں آ سکتی ہے۔ لہٰذا وہ مستقل ہجرت کر کے حجازِ مقدس تشریف لے گئے۔ حجازِ مقدس میں قیام: ۱۳۱۸ھ میں مولانا نے حجازِ مقدس کی راہ لی۔ وہاں بھی مولانا نے طرح طرح سے دین کی خدمات انجام دیں ۔ وہ عمل کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے، فارغ بیٹھنا ان کی سرشت میں نہیں تھا۔ جہاں بھی گئے علم و عمل کی شمعیں جلاتے گئے۔ شیخ محمد نصیف کے تاثرات: شیخ محمد نصیف جدہ کے نامور سلفی عالم تھے۔ انھوں نے مولانا ابراہیم کے درسِ حدیث میں شرکت کی اور مسلکِ سلف اختیار کیا۔ اپنی زندگی میں وہ جس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور جس شخصیت نے ان پر گہرا اثر مرتب کیا وہ مولانا ابراہیم آروی کی ذاتِ گرامی ہے۔ مولانا آروی کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار انھوں نے مولانا عبد الحمید رحمانی سے کیا۔ مولانا رحمانی نے ان تاثرات کو اپنے قلم کے ذریعے قرطاسِ ابیض پر محفوظ کر دیا۔ مولانا رحمانی لکھتے ہیں : ’’یہ حسبِ عادت ۱۳۱۸ھ میں گرمیاں گزارنے طائف گئے ہوئے تھے، وہاں سنا کہ ہندوستان کے کوئی بڑے متبع سنت عالم و مجتہد علامہ ابو محمد ابراہیم آروی آئے ہوئے ہیں اور صبح و شام وہ مشکوۃ المصابیح کا درس دیتے ہیں اور حلقۂ درس دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ علم کا شوق اور حق کی جستجو تھی ہی، علامہ آروی کے درس میں حاضر ہوئے اور ان کے اثرِ درس و وعظ اور عمیق علم و تحقیق نیز محدثانہ اسلوب و طریق اور مجتہدانہ بصیرت نے اپنی طرف بڑی شدت سے کھینچا۔ طائف میں شیخ احمد النجار طائفی کے درسِ فقہ میں برابر شرکت کیا کرتے تھے، لیکن ’’قال رسول ا للّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ کی صدائے پُرکیف اور علامہ آروی کے اسلوبِ تحقیق نے ’’قال الشافعي، قال المزني‘‘ کا رنگ پھیکا کر کے رکھ دیا۔ شیخ احمد النجار کے پاس فقہی تاویلات کی بھول بھلیاں تھیں ، تصوف کے کنائے تھے، ’’اشعریت‘‘ کی پیدا کردہ