کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 479
سر کاری ملازمت سے مستعفی ہو جا ئے اور یہ کہ کسی غیر سر کاری شغل میں آدھے معاوضے پر کام کرنا حکومت کے ماتحت اس قسم کے کام پر دوگنے معاوضے پر کام کرنے سے بہتر ہے۔‘‘
نولن نے مولاناابراہیم کی تقر یر و تبلیغ کے بعض انقلابی اور باغیانہ پہلوؤں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا:
’’ ابراہیم نے احتجاج، شورش، مقدمہ بازی، فراہمی چندہ اور سرکاری ملازمین کو استعفا کی ترغیب و اغوا، اس طور پر کہ فوجی سپاہیوں پر اثر انداز ہوں ، کے تمام طریقے استعمال کیے۔‘‘
نولن نے سفارش کی:
’’ابراہیم یقینا ایسا آدمی معلوم ہوتا ہے جس پر نگرانی رکھنا چاہیے۔‘‘ اس نے یہ رپورٹ بھی کی کہ ’’ابراہیم ایک طور (طرح) کا آمدنی ٹیکس روپے میں ایک پیسہ لگا کر روپے جمع کر رہا ہے۔ بیگم بھوپال اس فنڈ کے چندہ دہندگان میں نمایاں حصہ لیتی تھیں جو بظاہر جمع تو کیا جاتا تھا ایک دیوانی مقدمہ[1] میں مالی اعانت کے لیے جس میں ضلع آرہ کے وہابی الجھے ہوئے تھے مگر دراصل یہ ستھانہ کے مذہبی دیوانوں کے لیے مقصود تھا۔‘‘[2]
نولن کی سفارش کے باعث مولانا ابراہیم کے خلاف باقاعدہ تحقیقات ہوئیں اور ان پر خصوصی نظر رکھی گئی۔ پولیس انسپکٹروں نے سپرنٹنڈنٹ پولیس شاہ آباد کو ان کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ بھیجی، جس میں اطلاع دی:
’’محمد عمر کی طرح ابراہیم کے تعلقات بھی اعلیٰ درجے کے ہیں اور طاقتور اور ذی اثر رشتہ داروں سے مربوط ہیں ، شادیوں کے ذریعہ سے ان کا رابطہ خاندان صادق پور سے بھی ہے وہ عبد العزیز ساکن رحیم آباد ضلع دربھنگہ، عظمت حسین مختار کلکتہ، عبد الرحیم کے (بھائی) عبد الرؤف، لطیف حسین[3] اور ان کے بھائی عبد الغفور (عبد الغفار) ساکن مہدانواں کی
[1] آرہ میں عام مساجد میں ہونے والے احناف اور اہلِ حدیث کے مابین مقدمے کی طرف اشارہ ہے۔
[2] ہندوستان میں وہابی تحریک (ص: ۳۳۵، ۳۳۶)
[3] درست نام عبد اللطیف ہے۔