کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 478
اغراض کے لیے چندے فراہم کیے جا ئیں ۔ دہلی، پٹنہ اور آرہ میں مدرسے کھولے جا ئیں جن میں وہابی عقائد کی تعلیم دی جائے۔ تقسیم کے لیے کتابیں اور رسالے چھاپے جا ئیں ۔ چندے کے لیے مطبوعہ اپیلیں جلسے میں تقسیم کی گئیں اور دوسری جگہوں میں شائع کی گئیں ۔ ’’رپورٹ کے مطابق‘‘ اپیل کی پذیرائی بہت حوصلہ افزا ہوئی اور غریب طبقوں نے بھی جیسے درزیوں ، دھوبیوں اور سقّوں نے بھی مستعدی سے چندے دیے۔ کئی مولویوں کو جو حاضر تھے رسالے دیے گئے اور ان سے تبلیغی دوروں کے لیے نکلنے کو کہا گیا۔ ابراہیم نے کلکتہ، دہلی، لکھنؤ، غازی پور، بنارس وغیرہ کے دورے کیے اور ان جگہوں میں تقریریں کیں ۔‘‘[1] ایک رپورٹ میں کمشنر پٹنہ کو اطلاع دی گئی: ’’ممتاز وہابیوں کا ایک جلسہ سراج گنج میں منعقد ہوا، جہاں نذیر حسین بھی اپنی بھانجی کی شادی کی شرکت کے بہانے سے گئے تھے۔ اس تقریب نے وہابیوں کے اجتماع کے لیے ایک آسان حیلہ مہیا کر دیا۔ سربر آوردہ حاضرین میں نذیر حسین، محمد حسین لاہوری اور ابراہیم آروی تھے۔ جلسہ کے بانی و مہتمم ابراہیم تھے اور مقصد یہ تھا کہ ان کا تعاون حاصل کیا جائے اور اس ملک کے دار الحراب ہونے کا اعلان کر دیا جا ئے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ سرحد پر وہابی ریاست کا ہندوستان سے رابطہ اور اعانت نسبتاً بہت کمزور پڑگئی ہے، ہندوستان سے مزید رضا کاروں اور امداد کی ترسیل کی کوششیں کرنا چاہئیں ۔ خفیہ اجلاس کی خبر حکام کو ملی اور مجسٹریٹ مولویوں کو اچانک جا لینے کے لیے جھپٹے، لیکن اس جگہ نہ کو ئی قابلِ مواخذہ چیز دستیاب ہوئی نہ کو ئی گرفتار کیا جا سکا۔‘‘[2] جولائی ۱۸۸۱ء میں پی نولن سپر نٹنڈنٹ پولیس پٹنہ نے کمشنر کو مولانا کی انقلابی تبلیغی مہم کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا: ’’ابراہیم نے اپنے کلکتہ کے ایک دورے میں تبلیغ کی ہے کہ ہر مسلما ن پر واجب ہے کہ
[1] ہندوستان میں وہابی تحریک (ص: ۳۳۴) [2] ہندوستان میں وہابی تحریک (ص: ۳۳۴، ۳۳۵)