کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 477
اور مع اسناد کے آپ نے پڑھا۔‘‘[1] اصل واقعہ یہ ہے۔ چونکہ مولانا سعادت حسین، مولانا ابراہیم کے استاد تھے۔ اس لیے مولانا کا ذہن شاید ان کی طرف منتقل ہو گیا۔ باقی عمل بالحدیث پر طنزیہ گفتگو، تو یہ سب مولانا گیلانی کے ذہن کی پیداوار ہے، ہمارے تخیل میں حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی ایسی سطحیت سے کہیں بلند ہیں ۔ تحریکِ مجاہدین سے انسلاک: مولانا اندرونِ ہند تحریکِ مجاہدین کے نہایت اہم اور سرگرم رکن تھے۔ خود انقلابی فکر و نظر کے حامل تھے۔ ۱۸۵۷ء میں ان کے خاندان پر جو اندوہناک حادثے رونما ہوئے، وہ اسے پوری زندگی فراموش نہ کر سکتے تھے۔ وہ انگریزی استعمار کے سخت مخالف تھے۔ علمائے صادق پور کے دوش بدوش گراں قدر جہادی خدمات انجام دیں ۔ خفیہ سرکاری دستاویزات سے بھی ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا سراغ ملتا ہے،وہ سرزمینِ ہند میں انگریزی استعمار کو شکست دینے کے خواہاں تھے۔ ڈپٹی کمشنر پولیس کلکتہ لیمبرٹ نے کمشنر پٹنہ کو جو خفیہ اطلاعات بھیجی تھیں ، ان سے مولانا ابراہیم کی مختلف کارروائیوں کا حال معلوم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر قیام الدین احمد ان اطلاعات کی روشنی میں لکھتے ہیں : ’’کلکتہ پولیس کی رپورٹوں سے ۸۱ ؍ ۱۸۸۰ء میں ابراہیم کی جدوجہد کا حال معلوم ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’۱۸۸۰ء میں ڈھاکہ[2] کے ایک شخص بدیع الزماں نے ممتاز وہابیوں کا ایک جلسہ کرنے کی کو شش کی تھی، جس میں نذیر حسین دہلوی بھی شامل کیے گئے تھے۔ چونکہ وہ پولیس کے زیرِ نگرانی تھے۔ نذیر حسین نے دہلی میں جلسہ کرنے سے اختلاف کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے کوئی دور دراز کا اندرونی قصبہ منتخب کرنے کی رائے دی۔ ابراہیم نے مشورہ دیا کہ یہ جلسہ مظفر پور کے قریب ایک گاؤں تاجپور میں منعقد کیا جا ئے۔ جلسے میں کو ئی تیس ہزار وہابی مولوی جمع ہو ئے۔ جلسے کا اصل مقصد یہ تھا کہ بغاوت پھیلانے کے لیے حکمتِ عملی تیار کی جا ئے۔ یہ بھی طے پایا کہ مختلف فرقہ وارانہ
[1] کمالاتِ رحمانی (ص: ۳۹)، فضلِ رحمانی (۴۷، ۴۸) [2] ڈھاکہ بہار کے چمپارن ضلع کا ایک مقام ہے۔ یہاں وہی مراد ہے، نہ کہ موجودہ بنگلہ دیش کا دارالخلافہ ڈھاکہ۔