کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 476
ہے ان کے یاد کرنے کی ضرورت کو عمل بالحدیث کے لیے آپ نے ضروری خیال نہ کیا۔ کیا اسی کا نام ’’عمل بالحدیث‘‘ ہے؟ کہتے ہیں کہ مولوی ابراہیم جھینپ سے گئے۔‘‘[1] مولانا گیلانی کے پاس اہلِ حدیث علماء کے حوالے سے اس قسم کے قصے کہانیوں کی کمی نہیں ۔ اپنی تحریروں میں انھوں نے اہلِ حدیث فکر اور اس کے حاملین پر ٹھوس علمی تنقید کم ہی کی ہے، ان کا زیادہ تر گزارا طنز و تعریض ہی کی راہ سے ہوا ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ طنز و تشنیع، تزکیہ و تربیت اور زہد و تقویٰ کی کون سی منزل ہے؟ اگر کسی خاص موقع کی دعا کے متعلق کہتے تو باور بھی کیا جا سکتا تھا۔ مولانا ابراہیم تو عوامی واعظ تھے جن کے وعظ و تذکیر کی مجلس کا شہرہ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کی تقریریں اختلاف سے کہیں زیادہ اتفاق پر مبنی ہوتی تھیں ۔ عقل کیسے باور کر سکتی ہے کہ جس کے زہد و تقویٰ کی گواہی اس عہد کے مشاہیر علماء نے دی ہو، وہ اس درجہ بے عمل ہو کہ عام مواقع کی دعائیں بھی اسے یاد نہ ہوں ، جب کہ اس کا تعلق علم و فضل سے نہیں ۔ عوام الناس بھی اس قدر دعائیں یاد رکھتے ہیں ۔ یہ قصہ تو محض بغضِ باطن کا اظہار ہے اور وہ بھی ایک ایسے صاحبِ علم کے قلم سے جو اہلِ حدیث فکر اور اس کے حاملین سے خاص کد رکھتے ہیں ۔ اللہ ان کی لغزشوں سے در گزر فرمائے۔ مولانا نے قصہ نقل کر ہی دیا ہے تو اس کی حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے۔ مولانا حافظ تجمل حسین دیسنوی لکھتے ہیں : ’’مولوی سعادت حسین صاحب مدرس مدرسہ عالیہ کلکتہ اور استاد مولوی ابراہیم آرہ وغیرہ کے بلکہ ہزارہا شاگرد ان سے ہوئے، تشریف لائے اور مولوی اکرم صاحب محدث بھی شامل تھے۔ اس وقت حضرت قبلہ چادر اوڑھ رہے تھے آپ نے ان سب علماء کو مخاطب کر کے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھتے وقت کون سی دعا پڑھتے تھے؟ مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔ سب عالموں نے انکار کیا کہ مجھ کو یاد نہیں ۔ حضرت نے فرمایا کہ مجھے ساٹھ برس ہوئے کہ حدیث پڑھا تھا۔ پھر آپ نے ڈیڑھ ورق کے قریب کئی دعا پڑھ دیا
[1] تدوینِ حدیث (ص: ۳۳۱)