کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 474
ذکر مضمون ہذا میں مختلف مقامات پر آ چکا ہے۔ مسلک و عقیدہ: مولانا عامل بالحدیث بزرگ تھے۔ انھوں نے تحصیلِ علم کے زمانے ہی میں مسلکِ عمل بالحدیث اختیار کیا تھا۔ ان کا شماراکابرِ اہلِ حدیث کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، لیکن بعض قصے کہانیاں گھڑ لی گئیں [1] کہ وہ آخر عمر میں حجازِ مقدس جاکر حنفی صوفی ہو گئے۔ ہفت روزہ ’’الفقیہ‘‘ نے تو صاف لفظوں میں یہ دعویٰ کیا: ’’مولوی ابراہیم آروی مقتدائے وہابیہ بھی حج کے واسطے مکہ معظمہ گئے تو انھوں نے بھی وہابیت سے توبہ کر کے حنفی مذہب اختیار کیا اور اسی عقیدہ پر ان کا انتقال ہوا۔ خدا ان کو غریقِ رحمت کرے۔ یہ قصہ تمام آرہ، پٹنہ و بہار وغیرہ میں مشہور ہے۔‘‘[2] مولانا مناظر احسن گیلانی نے تو مولانا ابراہیم کا اعترافی مکتوب (بنام مولانا محمد علی مونگیری) تحریر کرنے کا دعویٰ بھی ’’شاید‘‘ کے صیغے میں کر ڈالا ہے۔[3] قارئینِ گرامی گذشتہ سطور میں پڑھ چکے ہیں کہ مولانا آروی نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حجازِ مقدس میں مستقلاً ہجرت فرمائی، وہاں ان کا قیام دو برس سے کم رہا کہ پیامِ اجل آ پہنچا۔ اس عرصےمیں انھوں نے وہاں درسِ حدیث کی مجلس بھی آراستہ کی اور باطل افکار و نظریات کا رد بھی کیا۔ انہی کے فیضِ صحبت سے عالمِ عرب کے نامور عالم شیخ محمد نصیف جو شافعیت اور صوفیت کے پروردہ تھے، سلفیت سے آشنا ہوئے۔ ایسے میں یہ دعویٰ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ حنفیت کی طرف راغب ہو گئے ہوں ؟! ’’الفقیہ‘‘ کا یہ دعویٰ تو محض مضحکہ خیز ہی ہے کہ یہ قصہ ’’تمام، پٹنہ و بہار وغیرہ میں مشہور ہے۔‘‘ اپنے دعوے کی صداقت میں یہ خود بھی متذبذب ہی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اربابِ دیوبند ہوں یا بریلی، کسی نے بھی سو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود کبھی اپنی کتبِ تذکرہ میں مولانا ابراہیم کا
[1] کمالاتِ رحمانی (ص: ۱۹، ۲۰) [2] ہفت روزہ ’’الفقیہ‘‘ (امرتسر) ۵ جولائی ۱۹۱۹ء بحوالہ نزہۃ الخواطر کا علمی و تحقیقی جائزہ (ص: ۳۵) [3] تدوینِ حدیث (ص: ۳۳۱)