کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 473
ہندوستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔ تعلیم و تربیت کا ایسا سلسلہ جاری کیا کہ چھوٹے چھوٹے بچے مہذب و تعلیم یافتہ با اخلاق نظر آنے لگے۔.....اودھ، پنجاب، مدراس، بمبئی، بنگال و دکن کی سیر و سیاحت بذریعہ وعظ و اشاعت اسلام کر کے مردہ دلوں کو زندہ کیا۔ آپ کے زہد و مجاہدہ و اتباعِ سنت کے واقعات ایسے ہیں جن سے سننے والوں کے دلوں میں خدا کا خوف اور حبِ اسلام پیدا ہوتی ہے۔‘‘[1] مولانا اسلم جیراج پوری نے اپنے زمانۂ طالب علمی کے مشاہدات اور خود نوشت سوانحی مضمون میں چند علمائے اہلِ حدیث کا ذکر کیا تھا جو ان کے والد سے قریبی مراسم رکھتے تھے اور اسی بنا پر مولانا اسلم کو انھیں دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ مضمون دلچسپ مشاہداتی مضمون ہے، گو مضمون نگار کا قلم بعض علماء کے ذکر میں اخلاق و آداب کے پیمانے نہ نبھا سکا۔ اپنے مضمون میں مولانا ابراہیم آروی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’آرہ کے رئیس تھے اور علمائے اہلِ حدیث میں ممتاز، علم کے لحاظ سے بھی۔ غالباً ۱۳۰۹ھ میں رمضان کے مہینے میں بھوپال تشریف لائے تھے۔ حافظ عبد اللہ غازی پوری بھی ساتھ تھے۔ یہ دونوں حضرات جماعتِ اہلِ حدیث کے شمس و قمر خیال کیے جاتے تھے۔ ..... مولانا ابراہیم صاحب کا وعظ ہندوستان بھر میں مشہور تھا۔ جمعہ کے دن جامع مسجد میں ان کے وعظ کا اعلان کرایا گیا۔ ہم سب لوگ مع مولانائے موصوف کے اپنی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھ کر جامع مسجد گئے، بے اندازہ مجمع تھا۔ وسط مسجد میں کھڑے ہوکر وعظ فرمایا۔ چونکہ شکل و صورت میں والد سے مشابہ تھے، اس لیے شہر میں یہی مشہور ہوا کہ مولانا کے بڑے بھائی کا وعظ تھا۔‘‘[2] مولانا کے معاصرین اور قریب العہد اکابرِ علم، مثلاً: سر سیّد احمد خاں ، علامہ شبلی نعمانی، مولانا فضل حسین بہاری، مولانا حکیم عبد الحی حسنی، مولانا سیّد سلیمان ندوی، مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی، مولانا عبد المالک آروی، شیخ محمد نصیف وغیرہم مولانا کو کس درجہ وقعت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اس کا
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۴ اکتوبر ۱۹۱۹ء [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۵ جون ۱۹۳۷ء، نوادرات (ص: ۳۴۳، ۳۴۴)