کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 470
سے ہنوز نہیں گزری۔ شیخ محمد عزیر شمس نے اس کی بڑی تعریف کی ہے اور اسے عام فہم علمی اسلوب کا حامل قرار دیا ہے۔ مولانا مستقیم لکھتے ہیں :
’’یہ کتاب سورئہ فاتحہ، پارہ الم، سیقول، تبارک الذی اور عم کے با محاورہ ترجمہ مع مختصر تفسیر پر مشتمل ہے۔‘‘[1]
2 ’’طریق النجاۃ في ترجمۃ الصحاح من المشکاۃ‘‘: مولانا نے چار مختصر جلدوں میں ’’مشکوۃ المصابیح‘‘کی فصلِ اوّل کی احادیث کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ مطبع خلیلی آرہ سے ۱۳۰۵ھ میں طبع ہوا۔
3 ’’ترجمہ تفسیر ابن کثیر‘‘: مولانا پہلے عالمِ دین ہیں جنھوں نے تفسیر ابن کثیر کو اردو میں منتقل کرنا شروع کیا۔ تاہم یہ ترجمہ مرحلۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ صرف پہلے پارے ہی تک طباعت کی نوبت آ سکی۔
4 ’’فقہ محمدی ترجمہ و شرح الدرر البہیہ‘‘: مولانا نے امام شوکانی کی مشہورکتاب ’’الدر البہیہ‘‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا اور اس کی مختصر شرح لکھی تھی۔ مطبوع ہے، تاہم ہمیں دستیاب نہ ہو سکی۔
5 ’’القول المزید في أحکام التقلید‘‘: اس کتاب میں مولانا نے اجتہاد و تقلید سے متعلق مباحث قلم بند کیے ہیں ۔
6 ’’یتامیٰ‘‘: ۸ شوال ۱۳۱۱ھ کو آرہ شہر میں ایک یتیم خانے کا افتتاح ہوا، جس میں مولانا نے افتتاحی خطاب فرمایا اور یتیموں کے حقوق و نگہداشت سے متعلق لوگوں کو بڑے پُرسوز انداز میں توجہ دلائی۔ مولانا کی یہ تقریر مطبع خلیلی آرہ سے ۱۳۱۱ھ میں طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات: ۲۴۔
7 ’’بادشاہِ مجازی و حقیقی‘‘: انجمن اسلامیہ بانکی پور کے چودھویں سالانہ اجلاس کے موقع پر مولانا نے توحید کے موضوع پر عام فہم انداز میں تقریر فرمائی تھی۔ یہ وہی تقریر ہے جو کتابی شکل میں طبع کی گئی۔ مطبع الپنچ بانکی پور سے ۱۳۱۷ھ میں طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات: ۳۶۔
8 ’’سلیمان بلقیس‘‘: اس میں اسلام کی حقیقت اور توحید کے مسائل کو تمثیلی انداز میں بیان کیا
[1] جماعت اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات (ص: ۱۱)