کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 468
میں رفع یدین نہیں کرتے تھے مگر اس کو سنتِ ہدیٰ جانتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ نہایت افسوس ہے کہ جس بات کو آپ نیک جانتے ہیں ، لوگوں کے خیال سے اس کو نہیں کرتے۔ جناب ممدوح میرے پاس تشریف لائے تھے۔ جب یہ گفتگو ہوئی، میں نے سنا کہ میرے پاس سے اٹھ کر وہ جامع مسجد میں عصر کی نماز پڑھنے گئے اور اس وقت سے رفع یدین کرنے لگے۔ گو ان پر لوگوں نے بہت حملے کیے، مگر کلمۃ الحق ہمیشہ کلمۃ الحق ہے۔‘‘[1] مولانا غلام حسین کنتوری سے روابط: مولانا غلام حسین کنتوری اس عہد کے وسیع المشرب شیعہ عالم تھے۔ ندوہ کی تحریک سے بھی انھیں دلچسپی رہی تھی۔ فکر و نظر کے اختلاف کے باوجود مولانا ابراہیم اور مولانا کنتوری میں روابط استوار تھے اور آپس میں خط کتابت کا سلسلہ بھی رہتا تھا۔ مولانا کنتوری نے ایک کتاب بنام ’’انتصار الاسلام‘‘ لکھی تھی، جسے اس زمانے میں بڑی مقبولیت ملی۔ مولانا آروی نے اس کی بعض فروگذاشتوں کی اصلاح کی تھی۔ مولانا غلام حسین کنتوری، نواب حبیب الرحمن خاں شروانی کے نام اپنے مکتوبِ گرامی بابت ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۹ء میں لکھتے ہیں : ’’جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب مہتمم مدرسہ احمدیہ آرہ کا خط متضمن اصلاح بعض فروگذاشت کے جو مجھ سے مسئلہ حقوقِ والدین میں ہوئی ہیں ، جو باب سیز دہم انتصار الاسلام کا ہے، پہنچ کر میرے زخم ہائے جگر کا مرہمِ سیاہ بن گیا۔‘‘ [2] مولانا کی اردو نثر: مولانا کی اردو نثر بڑی سادہ اور رواں تھی۔ اردو ادب و نثر کی تاریخ لکھنے والوں نے مولانا کے ساتھ بڑی زیادتی کی۔ سر سیّد کے معاصرین میں جہاں حالی اور شبلی کی نثر کو مقام دیا جاتا ہے، وہیں مولانا کو بالکل نظر انداز کر دینا قرینِ انصاف نہیں ۔ اپنے ادبی محاسن میں مولانا یقینا حالی اور شبلی کے ہم پلہ قرار نہیں دیے جا سکتے، لیکن مولانا کو نظر انداز کر کے اردو نثر کی تاریخ لکھنا بھی درست
[1] مکتوباتِ سر سید (۱/۵۳۶) [2] ’’نقوش‘‘ (لاہور) ’’مکاتیب نمبر‘‘ (۲/۸۶۲)