کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 467
سرسید احمد خاں سے تعلق:
جس زمانے میں مولانا ابراہیم نے اپنی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا تھا، یہ بعینہٖ وہی وقت تھا جب سرسید احمد خاں بھی ایک مصلحِ ملت کی حیثیت سے برصغیر کی علمی و سیاسی تاریخ میں سایہ فگن تھے۔ ایسے میں ان دونوں کا آپس میں رابطہ استوار کرنا عین فطری تھا۔ ان تعلقات کی تفصیل ملنی تو اب محال ہے، تاہم سرسید احمد خاں کے مجموعہ مکاتیب[1] میں مولانا ابراہیم کے نام سرسید کے تین مکاتیب ملتے ہیں ، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مولانا ابراہیم کو کس وقعت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مثلاً: لکھتے ہیں :
٭ ’’میں آپ کے عنایت نامے کو باعثِ افتخار اور آپ کے دعائیہ کلمات کو باعثِ نجات سمجھتا ہوں ۔‘‘[2]
٭ ’’اگر آپ کا تشریف لے جانا لاہور ہوا اور مجھ کو آپ کی ملازمت حاصل ہوئی تو میں اس کو باعثِ افتخار سمجھوں گا۔ جس صفائیِ دل اور سچائی اور نیک دلی اور اخلاصِ قلبی سے آپ نے عنایت نامہ لکھا ہے، میں اس کی نہایت قدر کرتا ہوں اور دل سے شکر ادا کرتا ہوں ۔‘‘[3]
سرسید کا تیسرا خط بڑا دلچسپ ہے، جو ۱۰ فروری ۱۸۹۵ء کا تحریر کردہ ہے۔ اس خط میں سرسیّد نے جماعتِ اہلِ حدیث کے بارے میں بڑے دلچسپ پیرائے میں اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اپنے تئیں وہابیوں کی تین قسمیں قرار دی ہیں اور خود کو تیسری قسم میں داخل سمجھتے تھے، لکھتے ہیں :
’’آپ کو معلوم نہ ہو گا مگر آپ معاف فرمائیے گا کہ میں نے وہابیوں کی تین قسمیں قرار دی ہیں : 1۔ ایک (صرف) وہابی، 2۔ دوسرے وہابی اور کریلہ، 3۔تیسرے وہابی کریلہ اور نیم چڑھا۔ میں اپنے تئیں تیسری قسم میں قرار دیتا ہوں ۔‘‘[4]
اسی خط میں سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے عامل بالحدیث بننے کا بھی ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں :
’’جناب مولوی سیّد نذیر حسین صاحب دہلوی کو میں نے ہی نیم چڑھا وہابی بنایا ہے۔ وہ نماز
[1] مولانا محمد اسحاق بھٹی نے لکھا ہے: ’’مکتوباتِ سر سید کی ایک ہی جلد شائع ہوئی ہے۔‘‘ (دبستانِ حدیث: ص: ۲۴۲) جبکہ ’’مکتوباتِ سر سید‘‘ کی پہلی جلد مجلسِ ترقیِ ادب لاہور سے ۱۹۷۶ء میں اور دوسری جلد ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی۔
[2] مکتوباتِ سر سیّد (۱/۵۳۱)
[3] مکتوباتِ سر سیّد (۱/۵۳۴)
[4] مکتوباتِ سر سیّد (۱/۵۳۵)