کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 466
’’مجوزینِ نصاب کے سلسلہ میں حضرت شمس العلماء علامہ شبلی اور مولانا مولوی محمد ابراہیم صاحب آروی کا اسمِ گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔‘‘[1] مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ: مولانا ابراہیم آروی ’’مدرسہ اصلاح المسلمین‘‘ پٹنہ کے کبار مویدین اور بانی مدرسہ کے اہم ترین رفیقِ کار تھے۔ مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی لکھتے ہیں : ’’ضلع پٹنہ میں سب سے قدیم دینی تعلیم گاہ ’’مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ‘‘ہے جس کی بنیاد ۱۳۱۷ھ میں جناب مولانا عبد الرحیم صاحب (مجاہد فی سبیل اللہ) علیہ الرحمۃ نے رکھی اور بفضلہ تعالی اس وقت تک یہ مدرسہ مذہبی، اسلامی بنیادوں پر قایم ہے اور ان ہی بنیادوں پر اپنی دینی تعلیمی خدمات ابتدا سے انتہائی فارغ التحصیل تک کامیابی کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔ حضرت استاذی مولانا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری، مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم صاحب آروی، مولانا حافظ عبد العزیز صاحب رحیم آبادی، مولانا عبد الغفار صاحب چھپروی، حضرت والد ماجد مولانا ابو الطیب محمد شمس الحق صاحب ڈیانوی عظیم آبادی، مولانا نور احمد صاحب ڈیانوی عظیم آبادی وغیرہم اجلہ علماء و عمائدین اہلِ علم رحمہم اللہ ، مولانا عبد الرحیم صاحب بانیِ مدرسہ کے خاص رفقائے کار اور مدرسہ کے معاونین و سرپرست تھے۔‘‘[2] معاصر علماء سے روابط: مولانا اپنے فرضِ ملی کے سبب ہر طبقۂ فکر کے علماء سے روابط رکھتے تھے۔ اہلِ حدیث علماء میں تو ہر دلعزیز تھے ہی، دوسرے مکاتبِ فکر میں بھی مولانا بڑے مقبول تھے۔ وہ اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ اپنے اصلاحی مقاصدکے لیے مولانا مختلف مکاتبِ فکر کے علماء سے ملتے، ان سے خط کتابت کرتے اور اپنے موقف کی وضاحت کرتے۔ ان میں سر سید احمد خاں ، علامہ شبلی نعمانی، نواب محسن الملک، نواب حبیب الرحمان خاں شروانی، مولانا غلام حسین کنتوری وغیرہم قابلِ ذکر ہیں ۔
[1] ماہنامہ ’’معارف‘‘ (اعظم گڑھ)، مارچ ۱۹۳۷ء [2] ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ (بمبئی)، اشاعتِ خاص ’’تعلیمی نمبر‘‘ دسمبر ۱۹۵۴ء، جنوری و فروری ۱۹۵۵ء