کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 464
شیخ الاسلام حافظ ابن القیم کی ’’الجواب الکافي لمن سأل عن الدواء الشافي‘‘ ۱۳۰۷ھ میں طبع ہوئی۔ مولانا ابراہیم نے ’’مسند شافعی‘‘ سے متعلق مولانا علی اکرم آروی سے ایک کتاب ’’الرسالۃ المجند في أحوال المسند‘‘ لکھوائی جو مفید معلومات پر محتوی ہے۔ یہ کتاب ۱۳۰۶ھ میں ’’مسند شافعی‘‘ کے ساتھ ہی طبع ہوئی۔ ’’الادب المفرد‘‘ کا اردو ترجمہ مولانا عبد الغفار نشرؔ مہدانوی سے بنام ’’سلیقہ‘‘ لکھوایا، جو اسی مطبع سے ۱۳۰۹ھ میں طباعت پذیر ہوا۔ علامہ جلال الدین سیوطی کی ’’رحلۃ الإمام الشافعي‘‘، مولانا محمد حمید عظیم آبادی کی ’’تقریب النحو‘‘، مولانا عبد الصمد اوگانوی کی ’’رفع الاشتباہ عن صفات أولیاء اللّٰه ‘‘ وغیرہا بھی مطبع خلیلی سے طبع ہوئیں ۔ اس کے علاوہ حافظ عبد اللہ غازی پوری کی نصابی کتب اور خود بانیِ مطبع مولانا ابراہیم کی بیشتر کتابیں اسی مطبع سے مرحلۂ طباعت سے گزریں ۔ مطبع کے انتظامی امور مولانا ابراہیم کے برادرِ اصغر مولانا ادریس دیکھا کرتے تھے۔
تحریکِ ’’ندوۃ العلماء‘‘لکھنؤ:
مولانا ’’دار العلوم ندوۃ العلماء‘‘ لکھنؤ کے بانیوں میں سے تھے۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘کے قیام و استحکام کے لیے مولانا ممدوح کی خدماتِ جلیلہ لائقِ قدر و قابلِ ستایش ہیں ۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘ کے اولین اجلاس منعقدہ ۱۵؍ ۱۶؍ ۱۷ شوال المکرم ۱۳۱۱ھ میں مولانا بھی شریکِ مجلس تھے۔ اجلاس کے دوسرے دن مولانا کا وعظ بھی تھا۔ اس اجلاس میں طریقۂ تعلیم کی اصلاح کے لیے ۱۲ علمائے عالی مرتبت پر مشتمل ایک کمیٹی قائم ہوئی ان میں مولانا ابراہیم آروی بھی شامل تھے۔ بقیہ علماء میں مولانا لطف اللہ علی گڑھی، مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی، مولانا محمد علی مونگیری، شاہ محمد سلیمان پھلواروی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا عبد الحق حقانی دہلوی، مولانا ظہور الاسلام فتح پوری، شاہ محمد حسین الہ آبادی، مولانا عبد اللہ انصاری، مولانا احمد رضا بریلوی، مولانا عبد الغنی خاں رشید آبادی شامل تھے۔[1]
’’ندوۃ العلماء‘‘ کے دوسرے اجلاس میں مولانا امانت اللہ فصیحی غازی پوری سے مولانا کے اختلافات کا خاتمہ ہوا۔ مولانا امانت اللہ سے تقلید و عدمِ تقلیدکے مسئلے پر اختلاف نے مہیب صورت اختیار کر لی تھی، مگر ندوہ کے اجلاس میں مولانا ابراہیم نے آگے بڑھ کر مولانا امانت اللہ سے مصافحہ و معانقہ
[1] تاریخ ندوۃ العلماء (۱/۱۰۷)