کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 462
حال ضلع نالندہ میں ’’جامع ازہر‘‘ کی بنیاد رکھی، لیکن یہ مدرسہ بمشکل ایک سال چل سکا۔ اسی طرح ۱۳۵۰ھ میں ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کے انوار و تجلیات کے ظہورِ ثانی کے لیے آرہ ہی میں مولانا عبد الوہاب آروی نے ’’مدرسہ انوار احمدیہ‘‘ قائم کیا۔
مذاکرہ علمیہ آرہ:
مولانا نے قدیم و جدید نیز مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو باہم یکجا کرنے کی غرض سے ’’مذاکرہ علمیہ‘‘ کی بنا ڈالی، جس کے تحت ہر سال وسیع پیمانے پر جلسہ منعقد کیا جاتا تھا اور اکابر علماء کو اس میں مدعو کیا جاتا۔یہ اسی جلسے کا فیض تھا کہ شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی، شیخ حسین بن محسن یمانی، نواب محسن الملک، ڈپٹی نذیر احمد دہلوی، علامہ شبلی نعمانی، منشی ذکاء اللہ دہلوی، مولانا حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی، مولانا عبد الجبار غزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی جیسے علمائے اعیان کے قدوم میمنت لزوم سے ارضِ آرہ مشرف ہوا۔ان کی آمد سے عساکر موحدین کو وہ تقویت ملی جس نے مذاکرہ علمیہ کو چارچاند لگا دیے۔
یہاں صرف دینی مدارس کے وابستگان ہی شریکِ جلسہ نہیں ہوتے تھے، بلکہ اربابِ دولت بھی جلسے کی رونق بڑھاتے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے تھے، مثلاً: قاضی رضا حسین (پٹنہ)، مولانا علی احمد رئیس ڈیانواں ، سر علی امام، جسٹس شرف الدین وارثی، بیرسٹر نصیر الدین نصیرؔ نگرنہسوی وغیرہم۔
ان جلسوں نے دینی مدارس کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا۔ اس سے قبل دینی مدارس میں اس قدر بڑے پیمانے پر جلسے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ دینی مدارس کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا جو نہایت کامیاب رہا۔ بعد میں ندوۃ العلماء لکھنؤ نے اس کی پوری طرح سے پیروی کی۔
مولانا مناظر احسن گیلانی ’’مذاکرہ علمیہ‘‘ سے متعلق لکھتے ہیں :
’’اس مدرسہ کی ایک علمی مجلس ’’مجلس مذاکرہ علماء‘‘ کی یاد علماء کے دلوں سے اب تک محو نہ ہوئی ہو گی، خصوصاً مولانا عبد اللہ غازی پوری جو اس مدرسہ کے صدر تھے، ان کی تحریر و تقریر کی اسی مجلس کی بدولت ہندوستان میں دھوم مچی ہوئی تھی۔‘‘[1]
نصابِ تعلیم کی اصلاح میں مذاکرہ علمیہ نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ یہ مذاکرہ مولانا
[1] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا)، ’’بہار نمبر‘‘ ۱۹۴۰ء