کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 461
اور بالاتفاق مولانا رحیم آبادی مدرسے کے مہتمم بنے۔ جب تک مولانا ادریس زندہ رہے، مدرسے کا انتظام بحسن و خوبی چلتا رہا۔ علامہ رحیم آبادی کے معاملات میں کسی نے بے جا مداخلت نہیں کی، لیکن مولانا ادریس کی وفات کے بعد مولانا ابراہیم کے صاحبزادے مولانا محمد نے علامہ عبد العزیز کی جانشینی کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کے امور میں مسلسل مداخلت کرتے رہے۔ نتیجتاً مولانا رحیم آبادی مدرسہ احمدیہ آرہ سے دستبردار ہو گئے اور دربھنگہ میں مدرسہ احمدیہ سلفیہ کی بنیاد رکھی۔ مولانا رحیم آبادی کے لا تعلق ہو جانے کے بعد مولوی محمد صاحب بھی مدرسہ احمدیہ آرہ کو زیادہ عرصہ نہ چلا سکے۔ مدرسہ احمدیہ محض ایک دینی درس گاہ نہیں تھا، بلکہ تاریخِ اہلِ حدیث میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مدرسہ ہماری دینی درس گاہوں کی تاریخ میں ایک روشن باب ہے، جو بعد میں بننے والے مدارس کے لیے مثال بنا۔ مولانا نے اپنے اصلاحی خیال کی تکمیل کے لیے نہ صرف دنوں کا تیش بلکہ شبوں کا گداز بھی تج دیا، وگرنہ یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے مولانا عبد الحمید رحمانی لکھتے ہیں : ’’مدرسہ احمدیہ آرہ، آرہ میں باقی رہا، ملکی محلہ میں آج بھی جامع مسجد ابراہیمی اور مدرسہ احمدیہ موجود ہیں اور بحمد للہ توحیدِ خالص، اتباعِ سنت اور قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں یہاں آج بھی گونج رہی ہیں اور ہر قسم کی مخالفتوں ، حسد و بغض کی آلائشوں اور ’’برادرانِ یوسف‘‘ کی شب و روز کی سازشوں کے باوجود وہ چراغ جسے ابراہیم آروی کے اخلاص و ایثار نے جلایا تھا وہ آج بھی روشن ہے۔‘‘[1] تاہم اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ وہ ’’پہلی سی بَہار کہاں ‘‘، مدرسے کی وہ سابقہ عظمت عہدِ گذشتہ کی محض یاد بن کر رہ گئی۔ یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ آرہ میں ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کی بساطِ علمی کے پلٹ جانے کے بعد ۱۳۳۹ھ میں مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی نے ڈیانواں پٹنہ،
[1] مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی (۲/۲۸۵)