کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 460
’’مدرسہ احمدیہ‘‘ سے بے شمار تشنگانِ علم نے سیرابی پائی۔ علامہ سید سلیمان ندوی ایک مقام پر رقمطراز ہیں :
’’۱۹۰۰ء میں میرے والد مرحوم مجھے اسی مدرسہ میں بھیجنا چاہتے تھے، مگر تقدیر کچھ اور تھی۔‘‘[1]
سید سلیمان ندوی تو اس دانش گاہِ علم و عرفان سے فیضیاب نہ ہو سکے، مگر جن طلابِ علومِ اسلامیہ نے یہاں سے فیض اٹھایا اور اپنی دینی خدمات کا آغاز کیا، ان میں مولانا محمد اسحاق فخرؔ غازی پوری، مولانا ابوبکر شیث جون پوری، مولانا احمد بن حسام الدین مؤی، مولانا عبد الستار عمر پوری، شیخ محمد مصباح طرابلسی، مولانا عبد الغفار صادق پوری، مولانا حکیم عبد الوہاب صادق پوری، مولانا حکیم محمد محسن سملوی، مولانا محمد سلیمان ڈیانوی، مولانا محمد مکی مہدانوی، مولانا علی اصغر چھپروی، مولانا علی مہدانوی، مولانا حکیم عبد الرحمان وفاؔ عظیم آبادی، مولانا حکیم محمد ظہور آروی، مولانا حکیم محمد حسن کھگول دانا پوری، مولانا حکیم عبد الواجد بھوج پوری وغیرہم شامل ہیں ۔
۱۳۱۸ھ کے اوائل میں جب مولانا نے ہمیشہ کے لیے ہندوستان سے ترکِ سکونت کر کے حجازِ مقدس کی راہ لی تو مدرسے کی جملہ ذمے داریاں علامہ عبد العزیز رحیم آبادی کو تفویض کر گئے۔ علامہ رحیم آبادی، مولانا کی بھانجی کے شوہر تھے اور رشتے کے اعتبار سے داماد ہوتے تھے۔ مولانا آروی کو ان پر بہت اعتماد تھا اور ان سے بڑی محبت تھی۔ مولانا رحیم آبادی کے ذوق و فکر کی تربیت اور اسے نکھارنے میں مولانا ابراہیم کی شخصیت کا بڑا اور نمایاں اثر تھا۔
ذی الحجہ ۱۳۱۹ھ میں مکہ مکرمہ سے حضرت مولانا کی وفات کی اطلاع آرہ پہنچی۔ یہ خبر مدرسہ احمدیہ کے متوسلین و منتظمین اور مولانا کے تمام احباب پر بجلی بن کر گری۔ بہر طور اس صدمۂ جانکاہ سے نکل کر مدرسے کا انتظام تو چلانا ہی تھا۔ اس کے لیے ایک اہم جلسہ ہوا جس میں مولانا کی دینی، علمی و ملی خدمات کو سراہا گیا اور اسی جلسے میں مولانا کی جانشینی کا فیصلہ کیا گیا۔ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کا خیال تھا کہ یہ منصب مولانا ابراہیم کے برادرِ خورد مولانا ادریس آروی کو تفویض کیا جائے مگر مولانا ادریس نے کمالِ ورع و تقویٰ کا ثبوت دیتے ہوئے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے حق میں فیصلہ دیا
[1] حیاتِ شبلی (ص: ۱۴۹)