کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 459
ترقی کرتے کرتے ہندوستان کے اس عظیم و عجیب مدرسہ جس کا نام مدرسہ احمدیہ آرہ تھا، اس کا محلِ وقوع بن گیا، آج وہ مدرسہ معمولی حالت میں ہے، لیکن گزشتہ نصف صدی میں چند مخلص صاحبان عزم و عمل علماء جن میں مولانا ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کا اسمِ گرامی سب سے نمایاں ہے، اس مدرسہ نے ہندوستان کے تمام عربی مدارس کے مقابلہ میں اپنی شہرت و عظمت کا علم بلند کیا تھا، اسی مدرسہ نے قدیم درسِ نظامیہ کے نصاب پر ندوہ سے پہلے یا ندوہ کے ساتھ ساتھ غور کیا۔ منطق، فلسفہ، صرف و نحو اور متعدد اسلامی علوم کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرا کے شریکِ نصاب کیا۔ اس مدرسہ میں صرف بہار ہی کے طلبا نہیں پڑھتے تھے، بلکہ ہندوستان کے جنوب و شمال کے دور افتادہ علاقوں سے طلبا کھچ کھچ کر یہاں آگئے تھے، جن کی تعداد کسی زمانہ میں پانچ چھے سو تک پہنچ گئی تھی، اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل حیدر آباد کے ایک مشہور نواب اظہر جنگ بہادر تھے، جو اعلیٰ حضرت نظام خلد اللہ ملکہ کے پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدہ پر سرفراز تھے اور جن کی بدولت گزشتہ آرہ رائٹ میں حضور نظام خلد اللہ ملکہ نے ایک لاکھ کا گراں قدر عطیہ ستم زدوں کی امداد کے لیے عطا فرمایا تھا۔‘‘[1]
’’مدرسہ احمدیہ‘‘ سے مولانا کے غیر معمولی تعلق اور ان کے ذاتی اخلاص و للہیت کا ذکر کرتے ہوئے جناب ارشد سراج الدین لکھتے ہیں :
’’آپ کی عظمت سے متعلق ایک واقعہ ہے جس میں ہمارے لیے عبرت کے ہزاروں پہلو پنہاں ہیں ۔ مدرسے کی ضروریات کی تکمیل میں جب مالی پریشانی لاحق ہوتی تھی تو یہ مردِ درویش آرہ اسٹیشن پر رات کی تاریکی میں قلی گیری کر کے اور پچھلے پہر بذات خود دار الاقامہ کے غسل خانے، پیشاب خانے اور پائے خانوں وغیرہ کی صفائی کر کے مالی بحران پر قابو پاتا تھا۔ کیا خیر القرون کو چھوڑ کر ماضی میں دور دور تک کہیں اس کی مثال ملتی ہے؟ اس دور میں تو اس کا تصور بھی نا ممکن ہے۔‘‘[2]
[1] ماہنامہ ’’ندیم‘‘ (گیا) ’’بہار نمبر‘‘ ۱۹۴۰ء
[2] معمارِ بہار (ص: ۵۶، ۵۷)