کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 458
میں کی اور اللہ جل شانہ عم نوالہ نے اس ناچیز بدنام کنندہ نکونامے چند کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے ۔ اللّٰھم لک الحمد و الشکر ’’مگر حیف صد حیف کہ مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم صاحب بانی و مہتمم مدرسہ احمدیہ آرہ ۱۳۱۹ھ[1] میں بارادہ حجِ بیت اللہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ وہاں اس سال موسمِ حج میں ہیضہ کی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ چنانچہ بتاریخ شش ذی الحجہ ۱۳۱۹ ہجری اپنے تلبیہ حج کے بدلے بارگاہِ صمدی میں خودحاضر ہونے کے لیے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اس دارِ فانی سے دار البقاء کو رحلت فرمائی اور جنت المعلیٰ کی متبرک زمین میں جگہ پائی۔ ’’مولانا نور احمد علیہ الرحمۃ ڈیانوی کے صاحبزادے برادرم مولوی عبد الجبار صاحب بھی اس مبارک سفر میں مولانا کے خادم اور ہمسفر تھے، انھوں نے بھی مولانا کی مفارقت برداشت نہیں کی اور تاریخ ۸ ذی الحجہ ۱۳۱۹ ہجری کو یہ بھی مولانا کے رفیق سفرِ آخرت ہو گئے۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون ! اللّٰھم اغفر لھما و ارحمہما رحمۃ واسعۃ وأکرم نزلھما۔ وانحر روحہ بدل الأضاحی قبیل النحر یوم الأضحیان ’’مولانا کی رحلت کے بعد آپ کی اولاد میں کسی نے آپ کی جانشینی نہیں کی اور اس طرف کوئی توجہ و دل چسپی نہیں کی، البتہ مولانا علیہ الرحمۃ کے رفقائے کار اور مدرسہ کے روحِ رواں علماء نے کچھ عرصہ تک اس کو سنبھالے رکھا، لیکن اول تو یہ کہ ہر کارے را مَردے، دوسرے یہ کہ یہ بزرگان بھی یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے، یہاں تک کہ مدرسہ رفتہ رفتہ بالکل نسیاً منسیاً ہو گیا۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون‘‘[2] مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں : ’’آرہ جس کا نام شاہ آباد بھی ہے، آج سے کچھ دن پہلے بعض مقامی خصوصیتوں کی بنا پر صوبہ بہار کے اسلامی علوم کا مرکز بن گیا تھا۔ اس کی بھی مرکزیت تھی جس نے بہ تدریج
[1] ۱۳۱۹ھ نہیں ، ۱۳۱۸ھ ہے۔ ممکن ہے کتابت کی غلطی ہو۔ [2] ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ (بمبئی)، اشاعتِ خاص (تعلیمی نمبر) دسمبر ۱۹۵۴ء جنوری و فروری ۱۹۵۵ء