کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 456
مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی نے ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ بمبئی کی اشاعتِ خاص ’’تعلیمی نمبر‘‘ کے لیے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا: ’’بہار کے چار دینی مدرسے‘‘۔ اپنے اس مضمون میں انھوں نے بہار کی چار دینی درس گاہوں : ’’مدرسہ اصلاح المسلمین‘‘ پٹنہ، ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ، ’’مدرسہ احمدیہ سلفیہ‘‘ دربھنگہ اور ’’مدرسہ عزیزیہ‘‘ بہار شریف کا ذکر کیا ہے۔ سب سے بڑا تعارف ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ کا ہے۔ مضمون نہایت معلوماتی اور اسلوبِ نگارش بھی دلکش ہے۔ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘سے متعلق حکیم محمد ادریس لکھتے ہیں : ’’اس دینی اسلامی مدرسہ کی بنیاد مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم صاحب آروی نے ۱۲۹۷ھ میں رکھی۔ جس طرح سر سید علیہ الرحمۃ کو اسکول اور کالج علی گڑھ کے ساتھ غایت شغف اور انتہائی انہماک تھا اور اپنی انتھک کوششوں سے اس کو کمالِ عروج پر پہنچا دیا، اسی طرح سے مولانا ابو محمد ابراہیم علیہ الرحمۃ صاحب کو بھی اس مدرسہ سے بے غایت شغف اور اس میں انتہا درجہ کا انہماک تھا۔ جو ذرائع و وسائل سر سید علیہ الرحمۃ کو اسکول و کالج علی گڑھ کو ترقی دینے کے حاصل تھے، اس کا عشر عشیر بھی مولانا علیہ الرحمۃ کو اپنے مدرسہ کی ترقی کے واسطے حاصل نہ تھے۔ ’’مگر مولانا کی اولوالعزمی، بلند ہمتی، استقلال اور سب سے بڑھ کر اخلاص و خلوصِ نیت، روحانی طاقت، جذبۂ اسلامی، قوتِ ایمانی اور اللہ پاک کے فضل و کرم اور اس کی مدد و نصرت سے مدرسہ کو نہایت شاندار ترقی حاصل ہوئی۔ ’’پٹنہ و اطرافِ پٹنہ، ڈیانواں ، نگرنہسہ، بہار شریف، باڑھ، دانا پور، مظفر پور، چھپرہ، دربھنگہ، گیا وغیرہ اضلاعِ صوبہ بہار کے علاوہ بنگال، یوپی، سی پی، دہلی، لاہور، امرتسر، کوئٹہ، بلوچستان، سیالکوٹ، بٹالہ، کابل اور حیدر آباد دکن تک کے طالبانِ علومِ دینیہ جوق در جوق آکر اس مدرسہ کے فیضِ تعلیم سے سیراب ہونے لگے۔ تقریباً ڈھائی سو سے زیادہ طلبا اس میں تعلیم پاتے تھے، ان کے لیے قیام و طعام کا کافی اور مناسب انتظام تھا۔ کچھ طلبا کو مدرسہ کی طرف سے کھانا اور کپڑا بھی ملتا تھا۔ ’’جامع علومِ معقول و منقول استاذی مولانا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری علیہ الرحمۃ