کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 455
اس کے ابتدائی دور کے اساتذہ میں مولانا محمد سعید محدث بنارسی کا نام نمایاں ہے۔ استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری نے جب مسلکِ اہلِ حدیث کا شعار اختیار فرمایا تو غازی پور میں نہ صرف بعض جہلا نے ان کی مخالفت شروع کر دی، بلکہ خواص میں مولانا امانت اللہ فصیحی غازی پوری نے بھی مخالفت میں ایک محاذ کھڑا کر دیا، جس کے بعد حافظ صاحب کے لیے اہلِ شہر سے نباہ ممکن نہ رہا۔ چنانچہ مولانا آروی اور علامہ عبد العزیز رحیم آبادی کی مخلصانہ گزارش پر ’’ مدرسہ چشمہ رحمت‘‘ غازی پور کی تدریس ترک کر کے حافظ صاحب نے ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ میں مسندِ علم و فضیلت پر متمکن ہونا منظور فرمایا۔ یہاں حافظ صاحب کا بھر پور فیض جاری ہوا۔ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ میں یہ ’’چشمۂ رحمت‘‘ ۱۳۰۰ھ سے لے کر ۱۳۲۰ھ تک جاری رہا۔ تیرھویں و چودھویں صدی ہجری کے جلیل القدر محدث قاضی محمد بن عبد العزیز مچھلی شہری نے بھی ۱۳۱۴ھ میں ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ کو اپنی آمد کا شرف بخشا۔ بقول امام خاں نوشہروی: ’’آپ کی تشریف فرمائی کی وجہ سے مدرسہ مرجع خلائق بن گیا، حوالی اور مدرسہ کے اساتذہ ہالہ بنے ہوئے تھے جس میں حدیث کا یہ چاند ضیا پاشی کر رہا تھا۔‘‘[1] علامہ عبد العزیز رحیم آبادی نے بھی اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود یہاں کچھ عرصہ خدمتِ تدریس انجام دی۔ شاہ عین الحق پھلواروی جیسے عالم ربانی نے بھی اپنی حیات کے آخری چار، پانچ برس یہاں تدریس کی ذمے داری بحسن و خوبی نبھائی اور ’’صدر المدرسین‘‘ کے منصبِ جلیل پر فائز رہے۔ ان کے علاوہ جن علمائے عالی قدر نے یہاں علوم و فنون کے چشمے بہائے، ان میں مولانا وصیت علی نگینوی، علامہ عبد الرحمان مبارک پوری صاحبِ ’’تحفۃ الاحوذی‘‘، مولانا عبد السلام مبارک پوری، مولانا ابو طاہر بہاری، مولانا محمد ابراہیم اعظم بیا پوری، مولانا محمد اسحاق فخرؔ غازی پوری، مولانا عبد المنان وفاؔ غازی پوری، مولانا عبد العزیز روانوی، مولانا عصمت اللہ حنفی بختاور گنجی، مولانا ابو عبد الودود محمد ادریس آروی، مولانا ابوالفیاض عبد القادر مؤی، مولانا عبد الغفار نشرؔ مہدانوی، مولانا نذیر الدین احمد بنارسی، مولانا عبد النور مظفر پوری وغیرہم شامل ہیں ۔
[1] تراجم علمائے حدیث ہند (۱/۳۷۸)