کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 454
عبد العزیز رحیم آبادی، مولانا عبد الغفار نشرؔ مہدانوی، مولانا سیّد انور حسین مونگیری، مولانا عبد الصمد داناپوری، مولانا محمد اشرف ڈیانوی اور علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی جیسے علمائے کبار مولانا کے شریکِ کار تھے۔ مولانا ابراہیم ہر طبقۂ فکر میں ہر دلعزیز تھے۔ ان کی زندگی نے جہاں اصحابِ علمِ دین کے فکر و ذوق کو متاثر کیا، وہیں اربابِ دولت و دنیا بھی ان کے مداح ہوئے۔ قاضی رضا حسین جو پٹنہ کے مشہور رئیس اور فکرِ سرسید کے بہار میں سب سے بڑے موید تھے، مولانا ابراہیم کے دل سے قدر دان تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کے قائم کردہ مدرسے کے عملی خیر خواہوں میں سے تھے۔ مولوی عبدالغنی استھانوی ’’حیاتِ رضا‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’بہار کے ایک مشہور فاضل اور فصیح و بلیغ خطیب نے جن کا نام مولوی ابو محمد ابراہیم تھا، مدرسہ احمدیہ قائم کیا۔ مولوی صاحب نے یہ مدرسہ قاضی صاحب کی زندگی ہی میں قائم کیا تھا۔ یہ عربی کا مدرسہ تھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ ایسا طریقۂ تعلیم عربی پڑھنے کے لیے تجویز کیا جائے جس میں زیادہ وقت ضائع نہ ہو، چنانچہ مولوی صاحب نے سالہا سال کے غور و فکر اور محنت و کوشش کے بعد ایک بہت سہل طریقہ عربی کی تعلیم کا تجویز کیا اور اس مقصد کے لیے بہت سی کتابیں بھی خود ہی تالیف کیں ۔ یہ نصاب ایسے طریقہ پر ترتیب دیا کہ طلبا اس سے جلد فراغت حاصل کر کے اپنا وقت دین و دنیا کے دوسرے ضروری کاموں کے لیے بچا سکیں ۔ اپنے مجوزہ نصاب کا عملی تجربہ کرنے اور اس کو کامیاب بنا کر دکھانے کے لیے مولانا ابراہیم صاحب نے مدرسہ احمدیہ کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے دارا لاقامہ (بورڈنگ ہاؤس) بھی قائم کیا۔ قاضی صاحب نے اس مدرسہ کی بھی حمایت و تائید کی اور ماہانہ چندہ بھی مقرر کیا۔ قاضی صاحب اپنے اصول کے اس قدر پابند تھے کہ جب مرض الموت میں ان کی رحلت سے دو چار روز پہلے مولوی ابراہیم صاحب عیادت کے لیے آئے اور رخصت ہو کر چلے تو ان کو پھر بلوا کر پوچھا کہ مدرسہ کی کن کن مدات کی بابت میرے ذمے کس قدر رقم واجب الادا ہے، مولوی صاحب نے جو حساب بتایا اسی وقت خانساماں کو بلوا کر بیباق کردیا۔‘‘[1]
[1] حیاتِ رضا (ص: ۳۶)