کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 453
’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ: یہ مولانا کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ ۱۲۹۷ھ بمطابق ۱۸۹۰ء کو عصری تقاضوں کے پیشِ نظر اور مسلمانوں میں شرح تعلیم میں اضافے کی غرض سے ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ (آرہ) کی بنیاد ڈالی۔ مولانا کے جذبۂ اخلاص کا اثر تھا کہ نہایت کم عرصے میں مدرسے کو غیر معمولی شہرت اور کامیابی ملی۔ اس کے مدرسین کی فہرست میں برصغیر کے نامی گرامی علمائے ذی اکرام شامل ہیں اور اس کے حلقۂ مستفیدین میں علمائے مشاہیر کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ بقول مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی: ’’اپنے عہدمیں اہلِ حدیث بہار کی یونی ورسٹی تھی جس میں تمام حصص ملک کے طلباء حاضر رہے۔‘‘[1] مدرسے میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور طلابِ علم کے قیام کے لیے ’’دار الاقامہ‘‘ بھی موجود تھا۔ مدرسہ بڑے و سیع و عریض رقبے پر قائم کیا گیا تھا۔ اس کی عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ندوۃ العلماء‘‘ کے اجلاس منعقدہ ۱۳۱۱ھ میں علامہ شبلی نعمانی نے تجویز پیش کی: ’’اس امر میں سعی کی جائے کہ مدارسِ اسلامیہ جو کثرت سے جا بجا قائم ہیں ان کو ایک سلسلہ میں مربوط کرنے کے لیے دو تین بڑے مدرسے مثل مدرسہ دیوبند، مدرسہ فیضِ عام کان پور، مدرسہ احمدیہ آرہ وغیرہ بطور دارالعلوم کے قرار دیے جائیں اور چھوٹے چھوٹے مدرسے ان کی شاخیں قرار دی جائیں ۔‘‘[2] مدرسے کا اپنا ایک دارالمطالعہ تھا، جس میں مولانا نے اپنی تمام کتابیں عطیہ کر دی تھیں ۔کتب خانے کے لیے محی السنۃ نواب صدیق حسن خاں اور شمس المحدثین علامہ شمس الحق ڈیانوی نے بھی کتابوں کے عطیے دیے۔ اس کتب خانے میں تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، رجال، سیرت، عقائد، تاریخ، فلسفہ، کلام، منطق، طب اور دیگر علوم و فنون کا قیمتی ذخیرہ جمع ہو گیا تھا۔ مدرسے کی تعمیر و ترقی کے لیے علامہ حافظ عبد اللہ غازی پوری، مولانا محمد ادریس آروی، علامہ
[1] ہندوستان میں اہلِ حدیث کی علمی خدمات (ص: ۱۴۹) [2] حیاتِ شبلی (ص: ۳۰۸)