کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 452
فرق) پایا جاتا ہے اس وقت تک کہ مسلمانوں کی حکومت و سلطنت تھی، علومِ عربیہ سے اگر مطالباتِ دماغیہ پورے ہوتے تھے تو جسم و جسمانیت کا انتظام بھی انہی سے انجام پا جاتا تھا، لیکن انگریزی حکومت کا دور جب آغاز ہوا تو مطالباتِ جسمانیہ کا انصرام آہستہ آہستہ انگریزی تعلیم میں منحصر ہو گیا۔ اب اگر خصوصیتِ ملی اور امتیازِ قومی کی حیات تشنہ آبِ علوم اسلامیہ تھی تو قوام (نظام کار، مدارِ اصلی) جسم کا نظام اپنے بقا اور نمو کے لیے انگلش زبان کا بھوکا تھا۔ حکمائے امت کی دور بیں نگاہوں نے اسے دیکھا اور عربی مدارس کے اصولِ تعلیم میں تغیر و تبدل کے لیے آمادہ ہو گئے۔ خالص مدارسِ عربیہ میں کچھ انگریزی کی تعلیم داخل کی گئی۔ نیز طریقہ تعلیم میں بھی سہولت کی راہ پیدا کی گئی۔ فقیر کے علم میں سب سے پہلے مدرسہ احمدیہ آرہ نے اس کی بنیاد رکھی۔ صرف و نحو کی بعض کتابیں سہل اصول پر تصنیف ہو کر وہاں سے شائع ہوئیں اور کچھ انگریزی کا سیکھنا لازم قرار دیا گیا۔‘‘[1] قدیم و جدید کشمکش کا خاتمہ اور اس کے حسین اور متناسب امتزاج کی پہلی سعی مولانا ابراہیم آروی نے کی۔ مولانا سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں : ’’علماء نے قدیم و جدید کی آمیزش سے نئی عربی درسگاہ کے قیام کی کوشش کی اور سب سے پہلے مولوی سید نذیر حسین صاحب کے مشہور شاگرد مولانا ابراہیم صاحب آروی نے آرہ صوبہ بہار میں مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی اور اس کے بعد ندوۃ العلماء نے لکھنؤ میں اپنا نیا مدرسہ دار العلوم کھولا۔‘‘[2] تعلیمی نظام اور مدارس کی اصلاح کے لیے مولانا کی کوششیں کامیاب ہوئیں تو دیگر مکاتبِ فکر کے علماء نے بھی اسے قبول کیا۔ بعد کے قائم ہونے والے مدارس میں مولانا کے قائم کردہ نقشِ اول کی پیروی کی گئی۔ گو آج قصداً امام العصر مولانا ابراہیم آروی کی خدمات کو ’’نظر انداز‘‘ کیا جاتا ہے اور تاریخِ تعلیم میں اصلاح و تجدید کا باب ’’ندوۃ العلماء‘‘ لکھنؤ سے شروع کیا جاتا ہے۔
[1] السبیل (ص: ۲۰) [2] نقوش ’’آپ بیتی‘‘ نمبر (ص: ۲۷۷)