کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 451
تعلیمی نظام کی اصلاح:
مولانا نے قدیم نظامِ تعلیم کی اصلاح کی طرف بھی اپنی توجہ منعطف کی، عصری تقاضوں کی رعایت کرتے ہوئے نظامِ تعلیم میں اصلاح اور نصابِ تعلیم میں ترمیم کے لیے اپنی مساعیِ جمیلہ کا آغاز فرمایا۔ طلابِ علم کی تکالیف اور ضرورتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے دینی مدارس میں ’’دار الاقامہ‘‘ کے قیام کی تجویز سب سے پہلے مولانا ہی نے پیش کی تھی اور ان تمام تر اصلاحات کے نفاذ کے لیے عملی اقدام بھی کیا، جس کا نتیجہ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔
علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :
’’(آپ) نئی باتوں میں اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے۔ چنانچہ نئے طرز پر انجمن علماء اور عربی مدرسہ اور اس میں دارالاقامہ کی بنیاد کا خیال ان ہی کے دل میں آیا۔‘‘[1]
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
’’مولانا ابراہیم صاحب آروی ..... نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔‘‘[2]
دینی مدارس میں سب سے پہلے انگریزی زبان کی تعلیم کا خیال بھی مولانا ہی کی اولیات میں سے ہے۔ انگریزی محض ایک زبان ہے۔ آج خیر اس کی اہمیت اور آفاقیت بیان سے باہر ہے، مگر مولانا کی دور بیں نگاہوں نے اس وقت اس کی اہمیت کا ادراک کر لیا تھا کہ جب لوگ انگریزی زبان کی تحصیل کو بھی کفر خیال کرتے تھے۔ مولانا سلیمان اشرف بہاری اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے پہلے مولانا ہی کے قائم کردہ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ میں انگریزی زبان کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یہ ایک واقعہ ہے کہ قوائے دماغیہ اور قوائے جسمانیہ دونوں کے وظائف جس طرح کہ مغائر (مخالف، نا موافق) ہیں ، ویسا ہی ان دونوں کے مطالبات میں بھی تغایر (تفاوت،
[1] حیاتِ شبلی (ص: ۳۰۸)
[2] مقدمہ ’’تراجم علمائے حدیث ہند‘‘ (۱/۳۶)