کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 450
عقدِ بیوگان:
مولانانے جن مٹتے ہوئے شعائرِ اسلامی کا احیاء کیا، ان میں سب سے اہم عقدِ بیوگان کی ترویج تھا، اس سلسلے میں مولانا نے جس حسنِ اخلاص کے ساتھ عملی نظیر پیش کی، وہ بجائے خود لائقِ ستایش ہے۔ سب سے پہلے اپنی بڑی ہمشیرہ کا باوجود کبر سنی عقدِ ثانی کیا۔ اپنی ایک بیوہ صاحبزادی کی دوبارہ تزویج کی۔ خود ایک بیوہ خاتون کو اپنے حبالۂ عقد میں لیا۔ پھر اس مسئلے کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ مولانا کے اخلاصِ عمل نے مسلمانوں میں پھیلے ہندوانہ رسم و رواج کی بیخ کنی میں اہم کردار ادا کیا اور اس طرح بہار کے شرفا بھی بیواؤں کے عقدِ ثانی کو معیوب نگاہوں سے دیکھنے سے گریزاں ہوئے۔ بقول مولانا عبد المالک آروی:
’’مولانا مرحوم کا سب سے بڑا حوصلہ آزما اور ہمت طلب کام اسی رسم کی ترویج تھا، آپ کے زمانہ میں مسلمانوں کے شریف گھرانوں میں بیواؤں کے عقدِ ثانی کے متعلق کوئی شخص ایک حرف بھی زبان پر نہیں لاتا تھا۔ مسلمانوں کو شرافت کے خبط نے اس کا حد درجہ مخالف بنا رکھا تھا۔ مولانا مرحوم نے بڑی جراَت اور خلوص کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مولانا مرحوم اپنی زندگی میں صرف یہی ایک کام کر جاتے توبھی آپ کانام ہماری تاریخ میں غیر فانی ہو جاتا۔ عقدِ بیوگان کا مسئلہ آسان نہ تھا، آپ خود ایک معزز خاندان کے فرد تھے، آپ نے اس مسئلہ پر لوگوں کی توجہ مبذول کرنے سے قبل خود اپنی بڑی ہمشیرہ کا عقدِ ثانی کیا، آپ کی یہ بہن بہت کبر سن اور عابدہ و زاہدہ تھیں ، آپ نے اپنی لڑکی کا عقدِ ثانی کیا۔ اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کو ایک آدمی کے نکاح میں دیا، خود ایک شریف بیوہ سے عقد کیا۔ یہ کام انجام دینے کے بعد آپ نے قوم کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا۔ قوم کے سنجیدہ اصحاب نے آپ کے خلوص و ہمت کے سامنے سپر ڈال دی اور اس طور سے یہ مبارک رسم ہماری سوسائٹی میں داخل ہو گئی، جس نے نہ صرف ہماری اخلاقیات پر ایک اچھا اثر ڈالا، بلکہ بہت سی مظلوم خواتین کی دوبارہ زندگی ہو گئی۔‘‘[1]
[1] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء