کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 449
ذوقِ عبادت:
آرہ میں جب مولانا نے اپنی مساعی کا آغاز کیا تو حسبِ دستور بعض رکاوٹوں اور ناخوشگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ سب سے پہلے مسجدِ اہلِ حدیث آرہ کی بنیاد رکھی۔ آرہ شہر میں سب سے پہلے مولانا ہی نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شبِ قدر کے لیے بیداری کا اہتمام فرمایا۔ اس سے قبل لوگ صرف شعبان کی پندرھویں شب کو بیدار رہ کر عبادت کر لیا کرتے تھے۔ مولانا کی اس سعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ شبِ قدر کو نرم و گرم بستر پر خوابِ غفلت کی نیند سونے کے بجائے عبادت گزاری میں گزارنے لگے۔ شبِ قدر کی راتوں میں مولانا اجتنابِ بدعت سے متعلق وعظ کہتے اور تہجد کی امامت فرماتے تھے۔
خود مولانا کا ذوقِ عبادت اور ان کی نماز عہدِ سلف کے بزرگوں کا عملی نمونہ تھی۔ حجازِ مقدس کے مشہور سلفی عالم شیخ محمد نصیف، جنھوں نے مولانا ابراہیم کے زیرِ اثر سلفی منہج اختیار کیا تھا۔ مولانا آروی کی نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’جب پہلی مرتبہ میں نے فجر کی صلاۃ علامہ آروی کی اقتدا میں پڑھی تو میں نے دیکھا کہ اثنائے قراء ت میں روتے روتے ان کی گھگھیاں بندھ جاتی ہیں اور گریہ و بکا کی وجہ سے قراء ت میں تسلسل باقی نہیں رہتا۔ اس کیفیت سے مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے متعجبانہ انداز میں ایک بزرگ سے دریافت کیا کہ شیخ اتنا کیوں رو رہے تھے، مبادا ان کا اکلوتا لڑکا عبدالقدیر مر تو نہیں گیا ہے؟ اس پر بزرگ نے خفگی کے انداز میں مجھ سے کہا کہ تم اتنا بھی محسوس نہیں کر سکتے، مولانا ایک متقی اور متورع عالم ہیں ۔ وہ جب صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو اس تصور سے کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہیں ان پر خشوع و خضوع اور خشیت و خوفِ الٰہی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور خوفِ الٰہی اور عذاب کے تصور سے ان کی آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں اور آواز بھرا جاتی ہے۔ تب میری سمجھ میں آیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نیز سلف صالح کی صلوات اتباعِ سنت اور خشوع و خضوع میں کس قدر ڈوبی رہتی ہوں گی۔‘‘[1]
[1] مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی (۲/۲۲، ۲۳)