کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 447
احیائے سننِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی جہد و سعی کا آغاز کر کے جذبۂ اتباعِ سنت کی داغ بیل ڈالنی چاہی اور نظامِ تعلیم میں اصلاح کر کے علومِ دینی کے طالبِ علم کو زمانے کی شورشوں سے مقابلہ کرنے والا مجاہد بنانا چاہا۔ مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں :
’’(آپ) نہایت ہی با اخلاص، نیک نیت، سچے اور جوشیلے تھے۔ جس وقت جو امرِ حق ان کے ذہن میں ثابت ہو گیا، ایک منٹ کے لیے بھی اس پر عمل کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے اور نہ اس کی پروا کرتے کہ لوگ مضحکہ اڑائیں گے یا متلون المزاج کہیں گے۔‘‘[1]
وعظ و تذکیر:
مولانا پُراثر واعظ و ناصح تھے۔ شعائرِ دینی کی ترویج و اشاعت اور بدعات و محدثات کی تردید و توبیخ میں بہت زیادہ ساعی تھے۔مولانا کے وعظ سے ایک خلقِ کثیر راہِ راست پر گامزن ہو گئی۔ اللہ نے ان کی زبان کو سریع الاثر بنایا تھا۔ جب وعظ کہتے تو لوگوں کو نہیں ، بلکہ قلوب کو متوجہ کر لیتے۔ مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں :
’’ان کی نماز اور ان کا وعظ ایسا پر اثر تھا کہ اب ان کو نہ صرف آنکھیں بلکہ دل ڈھونڈتا ہے۔‘‘[2]
علامہ سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں :
’’وہ نہایت خوشگوار اور پر درد واعظ تھے۔ وعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو رلاتے۔‘‘[3]
’’ندوۃ العلماء‘‘ کا پہلا اجلاس ۱۵ تا ۱۷ شوال ۱۳۱۱ھ بمطابق ۲۲ تا ۲۴ اپریل ۱۸۹۴ء کو کان پور میں بڑی شان سے منعقد ہوا۔مولانا بھی شریکِ اجلاس تھے۔ صبح کے جلسے میں مولانا نے واقعہ معراج اور پل صراط وغیرہ مباحث پر تقریر کی،سامعین میں متعدد ہندو وکلا بھی تھے۔ ختمِ اجلاس پر پنڈت پرتھی ناتھ کشمیری وکیل نے جناب صدر کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’مولانا ابراہیم جیسے چند علما اگر ہندوستان میں اشاعتِ اسلام کے لیے دورہ کریں تو پھر
[1] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۳۴۲)
[2] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۳۴۲)
[3] حیاتِ شبلی (ص: ۳۸۲)