کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 446
فصیح و بلیغ شاعر، ایک کہنہ مشق انشا پرداز، ایک پختہ کار خطاط، محدث، مترجم، عربی و فارسی، اردو زبانوں پر قادر، انگریزی سے بقدر ضرورت آشنا، یہ تھیں صفات ہمارے وطن کے اس بدیعۂ روزگار انسان کی، جو پاکبازی کا پیکر اور تقدس و روحانیت کا مجسمہ تھا، جس کی باتیں رفقا کے لیے دامِ تسخیر اور جس کی زندگی کے کارنامے آیندہ نسلوں کے لیے مشعلِ ہدایت تھے، اس کی وسیع لائبریری سے علامہ شبلی اور مولانا ذکاء اللہ جیسے ادبائے وطن مہینوں آکر استفادہ کرتے تھے، اس کا مطبخ مہمانوں کے لیے انواع و اقسام کا کھانا تیار کرتا تھا، لیکن یہ زاہد نفس کش خود اسی معمولی خوراک موٹے چاول، کھسارے کی دال اور ساگ ترکاری پر اکتفا کرتا تھا جو اس کی روزانہ غذا تھی، وہ اپنے کھانے کا انتظام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کرتا تھا۔ گھر میں باپ کی دولت موجود تھی لیکن سرمہ دانی بنا کر و ہ اپنی محنت اکلِ حلال حاصل کرتا۔ حضرت مولانا ہمارے بزرگانِ سلف اور صوفیائے کرام کے صحیح نقشِ قدم پر تھے۔ آپ ’’گانگی‘‘ سے اپنے دوشِ مبارک پر بالو کے تھیلے لاد کر لاتے تھے، آپ کو بالو کی ضرورت اپنے ہاتھ کی مصنوعات میں لاحق ہوتی تھی۔‘‘[1] اصلاحِ امت کی سعی: مولانا کا دل قوم کے درد سے معمور اور جذبۂ اصلاحِ امت سے سرشار تھا۔ اس ضمن میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ، اس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا عبد المالک آروی لکھتے ہیں : ’’حضرت مولانا ابراہیم صاحب مرحوم کی زندگی کا نصب العین ترویجِ سنت، استیصالِ بدعت، اشاعتِ دین اور نشرِ علم و ادب تھا۔ آپ نے مذہب اور معاشرت کے متعلق جو کوششیں کی ہیں ، وہ ہماری تاریخ اجتماعی کے اہم باب ہیں ۔‘‘[2] تکمیلِ تعلیم کے بعد مولانا نے اصلاحِ قوم و ملت کے لیے فی الفور اپنی مساعی کا آغاز فرمایا۔ وعظ و تذکیر کے ذریعے عوام الناس کے کردار و عمل کو کتاب و سنت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔
[1] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء [2] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء