کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 442
حاصل ہوا تو جناب علی آروی گرفتار ہوئے۔ ایک ناظر کی حیثیت سے حکیم عبد العلی کا فریضہ تھا کہ وہ بیٹے کی پھانسی کے انتظامات کرتے، لیکن یہ امر شفقتِ پدری سے محال تھا۔ چنانچہ حکیم عبد العلی نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حکیم عبدالعلی نے وفات پائی۔ حکیم عبدالعلی کی بیشتر جائیداد انگریزی حکومت نے ضبط کر لی تھی۔ وفات کے وقت کچھ جائیداد غیر منقولہ چھوڑی، جس کی سالانہ آمدنی تین ہزار روپے تھی۔[1] حکیم عبد العلی کے جن صاحبزادوں سے متعلق راقم کو آگاہی ہو سکی، ان کے اسمائے گرامی حسبِ ذیل ہیں : 1 علی۔ 4 حکیم ظہور الحسن۔ 3 حافظ ابو محمد ابراہیم۔ 5 ابو عبد الودود محمد ادریس۔ 5 محمد اسماعیل۔ بڑے صاحبزادے علی کا ذکر گذشتہ سطور میں حیطۂ تحریر میں آچکا ہے۔ حکیم ظہور الحسن اپنے دور کے ماہر طبیب اور باکمال خوش نویس تھے۔ ان کی ایک صاحبزادی عظیم النساء تھیں جو مولانا محمد یوسف رنجورؔ جعفری صادق پوری کے حبالۂ عقد میں تھیں ۔ محمد اسماعیل نے مکہ مکرمہ ہجرت فرمائی اور وہیں آسودئہ لحد ہوئے۔ حکیم عبدالعلی کو اللہ نے چند صاحبزادیاں بھی عطا کیں ۔ ان کی ایک صاحبزادی کی شادی شیخ محمد واعظ سے ہوئی جن سے ایک صاحبزادی بی بی امتل پیدا ہوئیں ، جو علامہ عبد العزیز رحیم آبادی کے حرم کی زینت بنیں ۔ اس طرح مولانا رحیم آبادی، مولانا ابراہیم کے بھانجی داماد اور مولانا یوسف رنجورؔ کے بھتیجی داماد ہوئے۔ حکیم عبد العلی کے دو صاحبزادوں مولانا ابو محمد ابراہیم اور مولانا ابو عبدالودود محمد ادریس نے شیخ الکل السید الامام نذیر حسین دہلوی سے اخذ و استفادہ کیا۔ اس لیے یہاں ان دونوں اعاظمِ رجال کی سوانح و خدمات کا تذکرہ راقم کا قلمی فریضہ ہے۔ بنابریں ذیل میں پہلے امام کبیر حافظ ابو محمد ابراہیم کے سوانحی تگ و تاز اور خدماتِ گوناگوں کا تذکرہ ہو گا اور اس سے متصل اگلے مضمون
[1] ہندوستان میں وہابی تحریک (ص: ۳۳۳، ۳۳۴)